لیجیے جی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے کمال کر دیا۔قوم کی امیدوں کی ٹمٹماتی ہوئی شمع کو دوبارہ روشن کر دیا۔ حیران کن طور پر جو ٹیم پونے تین سو سے اوپر سکور نہیں کر پا رہی تھی، اس نے چار سو سے بھی زیادہ رنز کے ہدف کی جاب بڑھی ۔ میچ جیت کر پوائنٹ ٹیبل پر اپنی پانچویں پوزیشن برقرار رکھی اور پاکستانی قوم کی یہ امید بھی برقرار رکھی کہ کچھ جمع نفی کر کے ان کی ٹیم اب بھی سیمی فائنل میں پہنچ سکتی ہے۔ یہ جمع نفی کا کھیل بھی عجیب ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی ہاکی اور کرکٹ کی ٹیموں کی قسمت جڑی ہوئی ہے۔پاکستانی قومی کھیل کی علمبردار ٹیم نے ہاکی کا آخری اولمپک 1984ء میں منظور جونیئر کی قیادت میں جیتا وہ بھی مکمل طور پر جمع نفی کے کھیل کا کمال تھا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے آخری اور واحد ورلڈ کپ 1992ء میں جیتا وہ بھی جمع نفی کے کھیل کا ہی شاخسانہ تھی۔ جب معاملہ جمع نفی تک پہنچتا ہے، تو اس کا مکمل دارومدار قوم کی دعائوں پر ہو جاتا ہے اور یہ دعائیں کم اور بددعائیں زیادہ ہوتی ہیں، اس لئے کہ تب ایسی صورتحال بن جاتی ہے جیسی اب 2023ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی بنی ہوئی ہے، یعنی اس کا زیادہ دارو مدار پاکستانی ٹیم کی اچھی کارکردگی پر نہیں بلکہ دوسری ٹیموں کی بری کارکردگی پر ہوتا ہے ان حالات میں پاکستانی ٹیم سے زیادہ پاکستانی قوم کو اور خصوصاً اس کی مائوں بیٹیوں کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے وہ مصلّے پر بیٹھ جاتی ہیں بلکہ چلتے پھرتے بھی اپنی ٹیم کی اچھی کارکردگی کی دعائیں کرنے کی بجائے کچھ دوسری ٹیموں کو نشانہ بنا کر انفرادی اور اجتماعی دعائیں مانگنے لگ جاتی ہیں کہ وہ ٹیم فلاں سے ہار جائے اور وہ ٹیم فلاں سے ہار جائے تو جب سب مارے جائیں گے تو تب ہماری ٹیم کی نمبرداری کی باری خود بخود آ ہی جائے گی اور چونکہ 1984ء اور 1992ء میں ایسی بددعائیں کامیاب بھی ہو چکی ہیں، اس لئے پاکستانی قوم کی مائیں بیٹیاں پر اعتماد بھی ہیں کہ ان کی بددعائیں اس دفعہ بھی عرش معالیٰ پر سنی جائیں گی اور ان کی ٹیم کا راستہ خود بخود ہموار ہوتا جائے گا۔ ہماری ٹیم بھی اس معاملے میں پوری قوم کا ساتھ دیتی ہے یعنی میچ ہارتے ہیں قوم کو بددعائوں پر لگاتے ہیں اور پھر ہارتے ہیں تو قوم مایوسی میں بددعائوں کے سلسلہ میں سست روی کا شکار ہونے لگتی ہے تو پھر میچ جیت کر قوم کی امید کا دیا روشن کر کے دعائیں مانگنے پر لگا دیتے ہیں۔ یہ وہی حال ہوتا ہے جیسا کوئی مولوی صاحب تقریر فرما رہے ہوں تو وقفے وقفے بعد سامعین کو نعرہ ھائے تکبیر و رسالت یا پھر درود شریف پڑھنے کی صدائیں لگا کر اپنی طرف متوجہ رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بھارت اور جنوبی افریقہ تو اب لگتا ہے ہماری بددعائوں سے مبرا ہو چکے ہیں اس لئے کہ وہ تو سیمی فائنل میں پہنچ ہی چکے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف بھی ہماری بد دعائوں نے کام نہیں دکھایا اور وہ انگلینڈ کو ہرا کر سیمی فائنل میں محض ایک قدم کی دوری پر ہونے کی وجہ سے سمجھیں پہنچ ہی چکا ہے۔ نیوزی لینڈ کا راستہ فی الحال تو ہم نے روک لیا ہے لیکن ان کے پہلے بیٹنگ کرنے کی وجہ سے ہماری ان کو 83رنز سے شکست دینے کی تمنا پوری نہیں ہو سکی۔ اب آٹھ آٹھ پوائنٹ ہونے کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور افغانستان ہماری بددعائوں کا مرکز ہیں کہ یہ کوئی اور میچ نہ جیت پائیں اور ہم باقی میچ جیت کر سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کر جائیں۔ اب ان بددعائوں کی بنیاد ریاضیات پر رکھ دی گئی ہے اور مسلمان امت کو الخوارزمی کے سکھائے گئے تمام حساب کتاب کو استعمال میں لا کر جمع نفی کے کچھ فارمولے تشکیل دے کر ان کو اپنی بددعائوں کا محور بنایا گیا ہے۔ اس ورلڈ کپ کے پچھلے میچوں سے تو لگتا ہے کہ افغانستان کی مائیں بہنیں پاکستانی مائوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کی طرح بددعائوں کی صلاحیت میں بھی آگے ہیں۔ تاہم حتمی نتیجہ آنے تک اس معاملے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مناسب نہیں ہے نہ ہی میں یہ بات کہہ کر پاکستانی مائوں بہنوں کو اپنی بددعائوں کے عمل سے روکنا چاہتا ہوں۔ یہی گزارش کرکٹ حکام سے بھی ہیں کہ اپنے گلے سے ذمہ داری کا قلا وہ اتار کر ٹیم کے کپتان کے گلے میں مت ڈالیں پہلے ہی انضمام الحق بہادر شاہ ظفر کے شعر کی طرح میچ منجدھار ٹیم کو چھوڑ کر ساحل پر آ چکے ہیں۔ٹیم کو بھی چاہیے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کی طرح اگلے میچ میں بھی جارحانہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے چیئرمین کرکٹ بورڈ کے منہ پر زور کا طمانچہ ماریں اور قوم کا مورال بھی بلند رکھیں گے تاکہ وہ پوری دلجمعی اور خشوع و خصوع کے ساتھ افغانستان و نیوزی لینڈ کے خلاف دعائوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ تبھی یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ سیمی فائنل میں پہنچ پائیں۔ چیئرمین ذکاء اشرف کے دن ویسے بھی اب گنے جا چکے ہیں۔ مرزا یار تو ان کو برداشت کرنے سے رہا۔ ہاں صاحب مفاہمت ان کے برقرار رکھنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے رہیں گے۔ ویسے بھی قوی امکان ہے کہ مرزا یار حجلہ عروسی میں صاحب مفاہمت کے بغیر نہیں پہنچ پائے گا۔ اس لئے ذکا اشرف کی چیئرمینی بھی شاید محفوظ رہے۔ انہیں چاہیے کہ بیچارے کھلاڑیوں پر ملبہ ڈالنے کی بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور نیویں نیویں ہو کر آٹھ فروری کا انتظار کریں، جس کے بعد صاحب مفاہمت کی اہلیت بڑھ جانے کی وجہ سے یہ بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ ویسے سن رہے ہیں کہ گزشتہ تین باریوں کی طرح اس دفعہ بھی دو تہائی کا مطالبہ پورے زور شور سے جاری ہے اس لئے کہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ مرزا یار مجبوری ہے۔ اگر ایسا ہوا تو صاحب مفاہمت کو ساحل سمندر پر ہی گزارنا کرنا پڑے گا لیکن یار لوگ اب اس موڈ میں نہیں لگتے، اس لئے کہ لٹکتے ہوئے ایوان کی طرح دو تہائی بھی سیاسی عدم استحکام کی ہی باعث بنتی ہے تاہم لٹکے ہوئے ایوان میں پلڑا یار لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے ان کی ترجیح شاید یہی ہو گی۔