بیوروکریسی کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں بیوروکریسی کا عمومی تاثر اچھا نہیں ہے۔ لوگ پاکستان میں بیورو کریسی کو زیادہ تر مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں ، لیکن آج تک ان عوامل پر غور نہیں کیا گیا کہ بیوروکریسی کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں ہوتی ہیں،،، کبھی اُنہیں سیاستدانوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے، کبھی فیصلہ کرنے والی قوتوں کے تو کبھی ’’مافیاز‘‘ کے۔ بیوروکریٹ تب بھی مرتا ہے جب وہ کسی کی ناجائز بات مانتا ہے،،، اور تب بھی مرتا ہے کہ جب وہ انکار کرتا ہے۔ مرتا وہ اس طرح ہے کہ اُس پر ناجائز مقدمات قائم کیے جاتے ہیں اور اُسے اُس کے خاندان میں اتنا ذلیل کر دیا جاتا ہے کہ وہ یا توخودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے یا وہ مستعفی ہونے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ جیسے گزشتہ روز ایسا ہی ایک ڈرامہ ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلا کہ ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں سول کورٹ کے بیلف نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) لاہور عدنان رشید کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا ، میڈیا اطلاعات کے مطابق پیر کی صبح ایک بیلف پولیس کے ہمراہ اے ڈی سی آر لاہور کے دفتر میں آیا، اس نے اے ڈی سی آر کے پی اے سے بات کی اور اسے عدالتی احکامات دکھائے اور اس سے پوچھا کہ کیا اے ڈی سی آر کے پاس اعلیٰ عدالت کا کوئی حکم امتناعی ہے؟ بعد ازاں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیلف کی سربراہی کرنے والے شخص نے پی اے کو مارا پیٹا اور عدنان رشید کی طرف دھاوا بول دیا جس پر عدنان اپنی نشست سے کھڑے ہو کر دریافت کرنے لگے کہ معاملہ کیا ہے،لیکن بیلف نے اعلیٰ افسر کو ایک جھٹکے میں ہتھکڑی لگائی اور بدسلوکی کرتے ہوئے دفتر کے عملے کو دور رہنے کی تنبیہ کی۔ ا سی دوران بیلف میں سے ہی کوئی واقعے کی ویڈیو بھی بنا تا رہا جس کوبعد میں سوشل میڈیا پر وائرل کردیا گیا۔ ویڈیو میں اے ڈی سی آر عدنان رشید کو بیلف سے ہتھکڑی ہٹانے کی درخواست کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ تعاون کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ چلیں گے لیکن بیلف نے ہتھکڑی ہٹانے سے انکار کر دیا اورانتہائی بدتمیزی سے گھسیٹ کر دفتر سے باہر لے گئے اور افسر کی ہی سرکاری گاڑی میں بٹھا دیا۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بھی اے ڈی سی آر بیلف سے ہتھکڑی ہٹانے کا کہہ رہے تھے لیکن انہوں نے کہا کہ چابی جج کے پاس ہے اور بعد میں کہا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے نکلنے کے بعد اسے ہٹا دیں گے اور انھیں ڈی ای آفس لاہور سے لیکر چلے گئے۔ کورٹ رپورٹر کے مطابق گلبرگ میں کچی آبادی قرار دی جانیوالی 6 کنال قیمتی زمین کی ملکیت کیس میں سول جج شفقت رسول کے حکم پر بیلف نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لاہورکو اپنے آفس سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا،جس کے بعد عدالت نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیئے۔ اب کیا کوئی حکام بالا میں سے بتا سکتا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ کیا تھا؟ کیا چیف سیکرٹری صاحب نے اس حوالے سے کسی قسم کا احتجاج کیا؟ یا کوئی ایکشن لیا؟ یا پھر وہ حسب سابق ایک بار پھر اپنے ماتحت سٹاف کی عزت کیوں نہ کروا سکے؟ حالانکہ عدنان رشید کی مذکورہ کیس میں تاریخ ایک دن بعد کی ہے لیکن، اُسے ایک دن پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ اور پھر یہ جانے ہمارے اداروں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے کہ ویڈیو بنا کر وائرل کر دی جائے؟ اور پھر ایسی صورتحال میں مجھے بتائیں کہ کون سرکاری آفیسر ایمانداری سے کام کرے گا؟ کیا ادارے اُنہیں ڈیڑھ دولاکھ روپے تنخواہ دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟ اور سوچتے ہیں کہ وہ حب الوطنی سے کام کریں گے اور بوقت ضرورت اُن کے کام بھی آئیں گے؟ کیا کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ڈیڑھ دو لاکھ روپے میں ایک عام آدمی کیسے زندگی گزار سکتا ہے۔ اس گرفتاری جیسے معاملات کے بعداُس کی اپنے محکمے میں عزت کیا ہوتی ہے؟ اگر تھوڑی بہت کہیں عزت بچتی ہے تو مجھے بتائیں کہ پھر وہ گڈ گورننس کیسے لا سکتے ہیں؟ یقین مانیں کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد میں خود ششدر رہ گیا کہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے،،، کیا کسی نے کبھی تاریخ پڑھی ہے کہ انگریز دور میں بیوروکریسی کو کس شان و شوکت کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ تاکہ اُس کے پاس آنے والے لینڈ لارڈ یا لینڈ مافیا اُس سے خوف کھائیں۔ لیکن یہاں تو ویڈیوز بنا بنا کر اُن کی اوقات دکھائی جاتی ہے۔ اور پھر سول جج کے دائرہ اختیار میں یہ کام کیسے آگئے کہ آپ ویڈیوز بنا بنا کر عوام میں پیش کریں یا بیلف بھیج کر بیوروکریسی پر ہاتھ ڈالیں۔ اگر ان کے دائرہ اختیار اتنے ہی وسیع ہیں تو ابھی تک عدالتوں کے کہنے کے باوجود پرویز الٰہی کیوں جیل میں ہیں؟ یہ وہی عدالتیں ہیں جو منتیں سماجتیں کرتی ہیں کہ پرویز الٰہی کو بحفاظت گھر پہنچایا جائے،،، مگر مجال ہے کہ وہ گھر پہنچ جائیں۔،، بلکہ راستے میں ہی اُٹھالیے جاتے ہیں۔ میں عدلیہ کی بالادستی اُس وقت مانتا جب پولیس کے اس اقدام پر آئی جی یا ڈی آئی جی کو ہتھکڑی لگوائی جاتی ،حالانکہ پرویز الٰہی کو ایس پی رینک کے افسران کے حوالے کیا گیا تھا،تو پھر کہاں کی رٹ؟ کیسی رٹ؟ یہ کام صرف چھوٹے افسران کے لیے ہیں؟ کچھ دن ہوئے ، بلال پاشا جیسے نوجوان آفیسر کے بارے میں خبریں آتی ہیں کہ انہوں نے خودکشی کر لی، نہیں یاد تو میں یاد کرواتا ہوں کہ چند روز قبل کنٹونمنٹ بورڈ بنوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بلال پاشا کی غیر طبعی موت نے پاکستان کے طول و عرض میں کہرام مچا دیاتھا۔ وہ بھی اداروں اور افسران کی طرف سے سخت دبائو میں تھے۔ اس واقعے کے بعد سول سروس سے تعلق رکھنے والے نوجوان افسران میں بے پناہ غم، خوف اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ آپ سوچیں کہ ایک سی ایس پی آفیسر جنہوں نے افسرانہ ٹھاٹ باٹ، طاقت، اختیارات، سماجی مقام و مرتبہ اور سرکاری جاہ و حشم کے باوجود مبینہ طور پر اپنے ہاتھوں ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، اُس کے حالات زندگی کیا ہوں گے؟ مطلب وہ اس آخری اقدام تک کیسے پہنچا؟ کیا وہ اتنے مضبوط اعصاب کا مالک نہیں تھا؟ بالکل تھا۔۔۔ اس پوسٹ پر عام ذہن رکھنے والا شخص نہیں آتا۔ لیکن جب وہ آکر اندر کے حالات دیکھتا ہے، لینڈمافیا اور دیگر مافیاز کے ساتھ ساتھ اپنے افسران کو طاقت ور مافیا کے ہاتھوں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو وہیں پر وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ خیر عدنان رشید کی گرفتاری نے سول سروس کے دشوار گزار عمل سے منتخب ہونے والے افسران کی ذاتی زندگی، پیشہ ورانہ استعدادِ کار، قوتِ فیصلہ، ذہنی و نفسیاتی خلفشار اور جذباتی انتشار سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ اگر آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں بیوروکریسی کو Discourageکریں گے،،، یا اُن کی بے عزتی کریں گے تو وہ ملک کی خدمت کیسے کریں گے؟لہٰذاچیف سیکرٹری صاحب خوددیکھ لیںکہ اُن کے محکمے کے افسران کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میرے خیال میں چیف سیکرٹری صاحب اس طرف بھی توجہ دیں کہ (باقی صفحہ9پر ملاحظہ کریں) لاہور جیسے بڑے شہروں میں ایک مافیا سرعام کارروائیاں کر رہا ہے،،، وہ اپنے ساتھ ایل ڈی اے کے افسران بھی رکھتا ہے،،، بعض انصاف کے ترازو اور صحافی حضرات بھی شامل ہوتے ہیں،پھر اگر کوئی جج ان کے نرغے میں نہیں آتا تو یہ اُسے ڈراتے بھی ہیں، دھمکاتے بھی ہیں اور اُسے اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے خوار بھی کرتے ہیں ۔ چیف سیکرٹری صاحب! آپ مجھ سے زیادہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے اُس کے مطابق جو کوئی بھی لینڈ مافیا سے ٹکرائے گا، اُس کے ساتھ یقینا ایسا ہی ہوگا، یا ہو سکتا ہے اس سے بھی برا ہو۔ اور پھر پراپرٹی ٹائیکون ایسے نہیں بنا جاتا،،، افسران کی پنٹیں اُتار کر، اُنہیں نشان عبرت بنا کر ہی اپنا خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ عدنان رشید کا کیس بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں اُن سے بدلا لینے کے لیے اُن کی تذلیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے خاندان میں سراُٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہیں۔ ورنہ ویڈیو ز وغیرہ کا کوئی تُک نہیں بنتا تھا۔ خدارا! سول بیورو کریسی سے وابستہ خواتین و حضرات بھی دوسرے عام انسانوں کی طرح گوشت پوست سے بنے ہیں، وہ بھی احساسات و جذبات رکھتے ہیں، خوشی، غمی،محبت، نفرت، غصہ، حسد، پیار، ایثار، اخلاص، مہرووفا، صبر و رضا اور صدق و صفا کے اوصاف کے ساتھ ساتھ بشری کمزوریوں کے سب رنگوں سے بھی وہ واقف ہوتے ہیں۔ لہٰذااُن کے ساتھ اگر ایسا سلوک روا رکھا گیا ، اور ذاتی مفادات کے لیے اُن پر دبائو بڑھایا جاتا رہا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ملک کبھی ترقی نہ کرسکے۔ میری چیف سیکرٹری صاحب سے استدعا ہے کہ وہ اس کیس کو مثال بنا کر ایسا لائحہ عمل بنائیں جس میں سرکاری افسرکو عزت کے ساتھ ساتھ وہ لوازمات بھی ملیں جس کے وہ مستحق ہیں! ورنہ خودکشی تو آخری حل ہے ہی!