پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ یہ وہ بات ہے جو پاکستانیوں کے لئے نئی نہیں ہے۔ پچھتر سال کی تاریخ مشکلات، بحران اور نازک ادوار سے ہی گزرتی رہی ہے ۔مشکلات کا یہ سفر ہے کہ تمام ہی نہیں ہو پارہا۔راستہ مشکل ہے یا منزل ہی واضح نہیں ہے۔ رہبر اور رہزن کی تمیز اٹھ گئی ہے اداروں کی باہمی کشمکش سے نہ صرف ان کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے بلکہ ان کا وقار اور احترام نچلی سطح تک آگیا ہے۔ ہر سیاسی اور ریاستی منصب پر موجود شخصیات کی خو د کوآئین اور قانون سے ماوراء سمجھنے کی روش نے انتشار کو فزوں تر کردیا ہے قومی سلامتی پر گہری تشویش کے سائے موجود ہیں۔ معیشت ، حکومت و سیاست اور ریاستی ادارے خستگی سے دوچار ہیں۔ ملک کی قیادت ذاتی تعصبات ، گروہی مفادات اور باہمی انتقام کے باعث بصیرت و بصارت سے محروم ہو چکی ہے۔عوامی مسائل ناقابل برداشت حد کو پہنچ چکے ہیں ۔یاسیت ،ناامیدی اور بے بسی اپنی انتہا پر ہے ۔ ملک سے باہر جانے والوں کی تعداد میں گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ہنر مند اور نوجوان طبقہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر نئے ٹھکا نوں کی تلاش میںہے ۔ حالات کے جبر سے پیدا شدہ اہلیت اور ذہانت کی یہ ہجرت تشویش کی حد تک جا پہنچی ہے ۔ فیصلہ سازوں کو شاید اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں یا وہ اس کے نتائج سے صرف نظر کئے ہوئے ہیں۔ موجودہ نگراں حکومت جس کا بنیادی فریضہ انتخابات کرانا ہے اور اس کا اختیار حکومت محدود اور مختصر ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ مسائل اور مشکلات کا سارا بوجھ بھی اب اس کے کاندھوںپر آگیا ہے بجلی کے ہوش اڑادینے والے بلوں کے باعث پورے ملک میں احتجاج کی جو لہر اٹھی ہوئی ہے اور جو غم و غصہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اس سے نمٹنے میں نگراں وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے بے بسی کا اظہار کیا ہے ۔یہ بے بسی محض حکومت کی نہیں ہے بلکہ ریاست کا اپنے شہریوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں عجز کا اظہار ہے ۔ ریاست کا بنیادی مقصد اپنے شہریوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے جہاں ان کی جان و مال ،عزت محفوظ ہو اور حصول معاش کی سہولتیں میسرہوں ۔تعلیم ،صحت اور بہتر زندگی گزارنے کے سب کو یکساں مواقع حاصل ہوں۔اس تصور کے باعث ہی ریاست کو ماں سے مماثلت دی جاتی ہے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے بالکل ویسے ہی ریاست اپنے شہریوں کی بہتری کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہنے کی ذمہ دار ہے۔ حالات اور واقعات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اپنا یہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔سیاسی اور انتظامی بد اعمالیوں کے تسلسل نے صورتحال اس نہج پر پہنچادی ہے کہ وہ مشکلات میں گھرے شہریوں کو اس سے نکالنا بھی چاہے تو یہ اس کے لئے ممکن نہیںہے۔آج کی دنیا میں ریاست کی آزادی کا تصور معیشت سے جڑا ہوا ہے ۔ پاکستان کی معاشی آزادی پہلے ہی آئی ایم ایف کے ہاتھوں سلب ہو چکی ہے ۔ بجلی کے بلوں پر احتجاج کی جو لہر پورے ملک میں اٹھی ہوئی ہے ۔ اس میں بتدریج شدت پیدا ہو رہی ہے۔ موجودہ نگران حکومت پر اس کا دبائو موجود ہے مگر وہ کسی طرح کی رعایت اور سہولت دینے سے مجبور ہے کیونکہ ریاست آئی ایم ایف کی مقروض ہے لہذا اب ہر رعایت اور سہولت آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہے ۔ ریاست اور اسکے عوام پر ہونے والے اس ظلم پر آئی ایم ایف ذمہ دار نہیں ہے ۔ وہ تو ریاستوں کو قرض فراہم کرنے والا ایک ساہوکار طرز کا ادارہ ہے جو قرض دینے سے قبل اس کی واپسی کے تمام امکانات کو پیش نظر رکھ کر تجاویز اور شرائط طے کرتا ہے ۔ اس کا سارا ارتکاز اس نقطہ پر ہوتا ہے کہ ریاست کسی بھی طرح اپنی آمدنی میں اضافہ کرے۔پاکستان میں آمدنی میں اضافے کے لئے آسان اور فوری ذریعہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا رہ گیا ہے خواہ اس کے اثرات اور نتائج شہریوں کے لئے کتنے ہی پریشان کن کیوں نہ ہوں ۔ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ ملک کی معیشت کی یہ صورتحال ریاست کے حکمرانوں کی ناقص معاشی اور انتظامی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور وہ ہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔قرضوں کی رقم کا غلط استعمال ، کرپشن،سیاسی عدم استحکام ،اورغیر ترقیاتی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ کے باعث معیشت کمزور ہوتی گئی اور اس کے حکمران ، سیاسی اور غیر سیاسی ،مالی طور پر مضبوط سے مضبوط ترہوتے گئے۔ حکمرانوں کی طرز بود و باش ،ان کے تکلفات، پروٹوکول کی آسائشات،غیر ملکی دوروں پر اگر نظر ڈالی جائے تو کہیں سے بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک مقروض اور معاشی طور پر بد حال ریاست کے حکمران ہیں۔ پاکستان کی موجودہ تمام مشکلات کا سبب اس کے حکمران ہیں بد قسمتی یہ ہے کہ ان کی بد اعمالیوں کا عذاب ریاست کے شہریوں کو جھیلنا پڑ رہا ہے ۔ مگر کب تک یہ سلسلہ چل پائے گا۔ یہ صورت حال ریاست اور اس کے شہریوں کے لئے سرخ لکیر عبور کر تی جارہی ہے۔ ریاست کی حکمران طاقتوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیئے کہ ریاست کی بقا اس کے شہریوں کے اطمنان میں ہے ،بے چینی میں نہیں۔ ہر جمہوری حکومت کا فرض ہے کہ جس عوام نے اسے مسند اقتدار تک پہنچایا ہے ان کے حقوق،سکون اور چین کا خیال رکھے ۔ ان کے مسائل پر توجہ دے اور انہیں حل کرے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ عوامی اضطراب کا حکمرانوں پر کوئی ا اثر نہیں اور وہ عوام کی بے چینی پر چین کی بین بجا رہے ہیں۔ نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے پھوٹے ہیں چاندنی سے شگوفے جلے ہوئے ہر ایک سنگ میل ہے اب ننگ رہگذر ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے اب میکدمے بھی نہیں کچھ اہتمام کیف ویران ہیں شعور تو دل بجھے ہوئے ساغر یہ واردات سخن بھی عجیب ہے نغمہ طراز شوق ہوں لب ہیں سلے ہوئے