نیویارک(بیورورپورٹ) امریکہ کی کشمیر کے بارے میں پالیسی تبدیل نہیں ہوئی البتہ واشنگٹن کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بگڑتے حالات پر تشویش ہے ۔امریکی عہدیداران اس خطے کے دونوں ممالک کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سابق اسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ بائوچر نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا بھارت کا یہ فیصلہ تاریخ کو مٹانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے ۔یہ کشمیر سے وابستہ پاکستانی مفادات سمیت سرحد پار آزادانہ آمدورفت ، استصواب رائے اور خودمختار ریاست جیسے تمام منصوبوں کو ختم کرنے کی بھی ایک کوشش ہے ۔ اس اعتبار سے اس اقدام کا مقصد ان تمام تاریخی منصوبوں کی نفی کرنا اور یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے ۔میرے خیال میں بھارت کا یہ ایک بدترین اقدام ہے ۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے بھارت میں جسطرح اقلیتوں کیساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے دنیا زیادہ دیر تک اس پر خاموش نہیں رہے گی۔ پروفیسر جانسن جونز کے مطابق ستمبر کے آخر میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس اہم موضوع کا چرچا رہے گا۔امریکی تحقیقاتی ادارے یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس سے منسلک معید یوسف کا کہنا ہے کشمیر کو ٹیک اوور کرنے کے فیصلے سے امریکی کانگریس میں بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بحث جنم لے سکتی ہے ۔امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے مودی حکومت کامقبوضہ کشمیر پر لیا جانے والا فیصلہ افغانستان کے پس منظر میں امریکہ کیلئے پریشان کُن ثابت ہو سکتا ہے ۔