نہ صرف سات اکتوبر بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے ہمارے برقی مجاہدین حکومت پاکستان کو کوس کوس کر طعنے دیتے ہوئے قوم کو اپنے وعظ فرماتے جا رہے تھے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا آخری سہارا ایران ہے جس نے نہ صرف ان کو راکٹ اور دیگر اسلحہ فراہم کر کے اس قابل بنایا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملے کر سکیں بلکہ یمن‘ لبنان اور شام جیسے ہمسایہ ممالک میں اپنی وفادار مسلح تنظیموں کو بھی اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔یہ تک بھی قوم کو بتانے کی کوشش کی گئی کہ احادیث کی روشنی میں قرب قیامت کی نشانی واضح ہو رہی ہے اور قیامت سے قبل آخری معرکۂ حق و باطل کا آغاز ہے اور اسی معرکے کی کوکھ سے تیسری عالمی جنگ بھی برآمد ہونے والی ہے۔اسی طرح کچھ اور برقی مجاہدین نے سماجی ابلاغ کے ذرائع پر قوم کو یہ سبق دیا کہ افغانستان میں ان کالی پگڑی والے مجاہدین کی حکومت آ گئی ہے جنہوں نے خراسان سے لشکروں کی شکل میں روانہ ہو کر دمشق میں دجالی فتنہ کے خلاف امام مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کے سنگ یروشلم کو ظالموں سے آزاد کروا کر دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنا ہے۔ ان برقی مجاہدین جن میں سے اکثر کے بچے یا خاندان مغربی ملکوں میں زندگی کے مزے لے رہے ہیں نے نہ صرف عام عوام کو غزہ پہنچنے کی ترغیب دی بلکہ حکومت پاکستان کو بزدلی اور نامردی کے طعنے دیتے ہوئے اسرائیل پر ایٹم بموں سے حملہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ افسوس صد افسوس ان برقی مجاہدین نے ایران اور افغان طالبان بارے کئے گئے تمام دعوئوں اور ان کی بنیاد پر پاکستانی حکومت کو دیے گئے طعنوں اور عوام کو دیے گئے ترغیبی خطبوں کا ایرانی لیڈر آیت اللہ خامنائی اور طالبان حکومت کے ترجمانوں کا بھی دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ اب نہ ان کی تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی امید پوری ہو گی اور نہ ہی فی الحال کوئی امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ظہور و نزول کا امکان باقی رہ گیا ہے اگر کچھ باقی بچا ہے تو وہ غزہ کے مسلمانوں کی چیخ و پکار‘ وہاں بچوں ‘ عورتوں اور بوڑھوں سمیت عوام کا قتل عام‘ گھروں ‘ ہسپتالوں اور سکولوں سمیت تمام انفراسٹرکچر کی تباہی اور 23لاکھ عوام کا مکمل طور پر اسرائیل افواج کے رحم و کرم پر ہونا ہے۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ سے ملاقات کے دوران ایرانی سپریم لیڈر نے انہیں۔۔۔۔۔۔واضح الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ ایران ان کی کسی طرح کی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ انہوں نے اسرائیل پر حملہ کرنے سے قبل ایرانی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ایرانی وزیر خارجہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ایران کسی صورت بھی نہیں چاہتا کہ حماس۔اسرائیل تنازع پھیل جائے۔یعنی اس میں دیگر اقوام ملوث ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ایران یا اس کی حمایتی تنظیمیں کسی صورت اس تنازعہ میں نہیں کودیں گی۔ ایران ہی کی طرح خراسانی مجاہدین کے مرکز افغانستان کے حاکم کالی پگڑیوں والوں نے جو غزوہ ہند اور دجال کے خلاف جنگ کے لئے ہمارے برقی مجاہدین کی امیدوں کا واحد سہارا ہیں نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ قطعاً کسی بھی صورت کوئی ایک بھی بندہ غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں بھیج رہے۔ وہ قطر معاہدے کی روشنی میں اس چیز کے پابند ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف کسی طرح کی جارحیت کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ان کے اپنے مسائل ہی بہت حل طلب ہیں اور ان کی ترجیح اپنے ملک و قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے اس لئے وہ کسی تنازعہ میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی حال ان برقی مجاہدین کے تیسرے رول ماڈل مسلمان راہنما ترکی کے طیب اردگان کا ہے۔ اب پتہ نہیں اپنے بچوں کو لندن اور براعظم امریکہ بھیج کر معصوم پاکستانی نوجوانوں کو جہاد اور دارالحرب و دارالکفر کا بھاشن دینے والے یہ برقی مجاہدین کیا کہیں گے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں کو غیبی مدد کی لوریاں دے کر عملیت سے دور لے گئے ہیں اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر امام مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کا انتظار کرتے جا رہے ہیں۔ کہ وہ آئیں گے تو ان کو ظالم غیر مسلموں کے چنگل سے نکالیں گے۔ دنیا میں مسلمان کہیں بدھمت کے پیروکاروں تو کہیں ہندومت ماننے والوں‘ کہیں صلیب کے علمبرداروں تو کہیں تابوت سکینہ کے متلاشیوں اور کہیں پر کسی بھی مذہب کے نہ ماننے والے کفار کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دینے کی بجائے اور قرآن و سنت کا اصل دین بتانے کی بجائے یہ لوگ ان کو حکایات کے پیچھے لگا کر انسانیت کا عضو معطل بنا رہے ہیں۔ انہیں یہ قطعاً احساس نہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں پر کیا ہو رہا ہے یہ ان کی مظلومیت کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کے فلسطینی شدید مزاحمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ مجھے ایک فلسطینی عیسیٰ نے بتایا کہ فلسطینیوں کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا یا قید میں نہ ہو لیکن وہ لوگ ہر طرح کی مشکلات کو حسبنااللہ و نعم الوکیل اور اللہ کی تکبیر کے نعروں میں بڑے حوصلے سے جھیل جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں ان حالات سے نکال کر امن کی طرف لایا جائے۔ اسرائیل اور مغرب ان کو دہشت گرد تو یہ اسرائیل کو انسانیت کا مجرم قرار دیتے ہیں۔ امت میں سے کوئی ایک بھی قوم حتیٰ کہ ان کے پڑوسی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ان کی کوئی مدد کر سکیں‘ وجہ ایمان کی کمزوری کہیں بزدل کہیں یا جو بھی مرضی کہیں فلسطینیوں کو ایران‘ افغانستان‘ ترکی ‘ سعودی عرب سمیت کہیں سے بھی کسی طرح کی عملی امداد کی امید نہیں تو اس کا حل ایک ہی ہے کہ تمام امہ عالمی اداروں کے ساتھ مل کر ان کے لئے امن تلاش کرنے کی کوشش کرے جو بقائے باہمی کے اصولوں پر بھی قائم کیا جا سکتا ہے ورنہ اسرائیل تو دن بدن پھیلتا اور فلسطین سکڑتا جا رہا ہے۔ اس عمل کو روکنے کا کوئی اور طریقہ ہے تو بتا دیں؟