مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی لند ن سے واپسی کے بعد سے اس جماعت کے سیاسی رابطوں میں جو تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور جس طرح مختلف سیاسی شخصیات اور جماعتوں کے ساتھ مستقبل کے لئے وعدے اور مشترکہ نکات تیار کئے جارہے ہیں، اس سے سیاسی اور انتظامی سطح پر یہ تاثر نمایاں ہونے لگا ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور اس کے سیاسی شراکت داروں کے لئے حکومت کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ کی سیاسی پیشرفت اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔سندھ کی سیاست میں بالخصوص دیہی سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط اثرات موجود ہیں اور وہ وہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں واضح نمائندگی حاصل کرتی رہی ہے، اس کے علاوہ پیر پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل کی بھی کچھ محفوظ نشستیں موجود ہیں ۔ کراچی اور حیدرآباد کے شہری علاقوں کی نمائندگی اس با ر بہت اہم ہے ۔کسی زمانے میں یہاں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کو بلا شرکت غیرے نمائندگی حاصل رہی تھی مگر 2016 کے بعد سے اس کی سیاسی بالادستی باقی نہیں رہی ۔گزشتہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو یہاں غیر معمولی کامیابی ملی تھی لیکن اب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ کراچی کی سطح پر حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی بہت زیادہ متحرک ہے ۔بلدیاتی انتخابات میں یہاں اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے تاہم اپنی یہ مقبولیت وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے موقع پر کس حد تک برقرار رکھ پائیگی اس پر شبہات موجود ہیں۔ موجودہ صورتحال میں سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی منقسم نظر آرہی ہے جس کے باعث مسلم لیگ نواز اس کوشش میں ہے کہ وہ یہاں موجود سیاسی قوتوں کے اشتراک سے کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ سندھ میں مسلم لیگ نواز کی کمزور تنظیمی حیثیت کے باعث اگرچہ یہ ایک مشکل ہدف ہے ۔یہ اور بات کہ کوئی چمتکار ہو جائے ۔ پاکستان کی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہونے کی ہمیشہ گنجائش موجود رہی ہے ۔پاکستان کے سیاسی نظام میں کامیابی کے لئے جماعت کی تنظیمی حیثیت ، منشور ، طرزعمل اور کارکردگی سے زیادہ بااثر شخصیات ( الیکٹیبلز)کی موجودگی زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔یہ بااثر شخصیات سیاسی موسم کے مطابق جماعتیں بدلتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی موجودہ سرگرمیوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ سندھ اور بڑی حد تک بلوچستان سے ایسی شخصیات کو اپنے ساتھ شامل کریں جو انتخابات جیتنے کی مضبوط پوزیشن کی حامل ہوں۔ سندھ میں ان کا ہدف متحدہ قومی موومنٹ اور جی۔ڈی ۔اے کو اپنے ساتھ ملانا ہے تو بلوچستان جہاں بیشتر سیاست با اثر شخصیات اورقبائلی سرداروں کے گرد گھومتی ہے وہاں نواز شریف اپنی سیاسی حمایت کے لئے زیادہ پر امید ہیں۔بلوچستان کے دورے کے موقع پر بلوچستان عوام پارٹی ( باپ) کے بیشتر رہنما مسلم لیگ میں شامل ہونے کا یقین دلا چکے ہیں۔یہی وہ پارٹی ہے جس کا قیام 2018 میں ہوا تھا اور جس کی وجہ سے بلوچستان میں نہ صرف مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ اسمبلی میں وہ اپنی اکثریت سے بھی محروم کر دی گئی اور جس کے باعث 2021میں اس کا سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ کا سینٹ میں راستہ روکنا چاہتی تھی اور وہ اس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے اشتراک سے کامیاب ہوئی۔ا ب اس بدلتی ہوئی صورتحال میں بلوچستان عوامی پارٹی کو مسلم لیگ نواز کے ساتھ ملایا جارہا ہے اور جس پر مسلم لیگ نواز بھی اقتدار کے لئے اپنے پرانے گھائو بھول کر بڑی خوش دلی کے ساتھ اس پر آمادہ ہو چکی ہے۔میر تقی میر کامعروف شعر جس کا پہلا مصرعہ کالم کا عنوان ہے ۔ اس صورتحال میں نواز شریف کی سیاست پر پوری طرح منطبق نظر آتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں الیکٹیبلز اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کا حکومت بنانے ، بگاڑنے اور کمزور رکھنے میں بہت اہم کردار رہا ہے، جسے اسٹیبلشمنٹ حسب موقع اور مصلحت سیاسی تبدیلیوں کے لئے استعمال کرتی ہے۔اور بڑی سیاسی جماعتیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کھیل کا حصہ بن جاتی ہیں کل اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے باپ پارٹی کے قیام کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا تھا تو آج مسلم لیگ انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے وہی کردار ادا کرنے جارہی ہے ۔سیاسی جماعتیں بیانات کی حد تک تو اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کی مذمت کرتی ہیں مگر اسی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعہ اقتدار کے لئے آسان راستہ اختیار کرنے سے چوکتی بھی نہیں ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تنظیمی حیثیت کمزور رہنے کی ایک اہم وجہ بھی یہی الیکٹیبلز ہیں ۔پنڈولم کی طرح کبھی اس سمت تو کبھی دوسری سمت ہو جانے سے الیکٹیبلز بھی اقتدار کے مزے لیتے ہیں تو سیاسی جماعتیں بھی ان کے باعث الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنا لیتی ہیں اور ان سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی نظام میں ان کی وجہ سے فیصلہ کن قوت حاصل رہتی ہے۔اس صورتحال میں پاکستان پیپلزپارٹی اگرچہ مسلم لیگ کے اس طرز عمل پر تنقید کر رہی ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر مسلم لیگ کی جگہ اسے یہ موقع مل رہا ہوتا توکیا وہ اس سے مستفید ہونے سے انکار کرپاتی ۔یقینا نہیں۔مسلم لیگ نواز کے لئے آج اقتدار کی منز ل جس طرح آسان نظر آرہی ہے کل اقتدار سے بے دخل کئے جانے کا راستہ بھی اسی طرح واضح طور پراس سیاسی نظام میں موجود ہے مگر بوجوہ مسلم لیگ اسے دیکھنے سے مجتنب ہے ۔ جب تک سیاسی جماعتیں اقتدار کے لئے الیکٹیبلز پر انحصار کرتی رہینگی سیاسی نظام میں ان کی حیثیت کمزور ہی رہے گی۔سیاسی جماعتیں کمزور رہینگی تو سیاسی استحکام کی منزل ہمیشہ دور رہیگی اور اگر سیاسی استحکام نہ ہو تو معیشت کمزور ،عوام بے حال اور ریاست کا مستقبل مخدوش رہے گا۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہو رہا ہے ۔ سیاسی اور سماجی ترقی کا سفر نہ صرف رک چکا ہے بلکہ تنزلی کی سمت بڑی تیزی جاری ہے ۔ آخر کب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا ۔ خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف لئے ریاستیں نئے امکانات اور راستوں کی تلاش میں ہیں جب کہ پاکستان میں سیاستدانوں کو اقتدار کے لئے سانپ اور سیڑھی والے کھیل سے ہی فرصت نہیں ہے ۔وہ اس بات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ عوام کی طاقت کے بغیر اقتدار محض فریب اور ادھورا ہے۔سماج میں اضطراب اور انتشار کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ داخلی سلامتی کے مسائل لمحہ بہ لمحہ پیچیدہ ہو رہے ہیں ۔ جتنی جلد اس کا تدارک کر لیا جائے ۔ بہتر ہوگا ۔ سیاست کے لئے بھی اور ریاست کے لئے بھی۔