ایسے لگ رہا ہے جیسے اس وقت ریاست بمقابلہ عدلیہ کشمکش جاری ہے، جس میں ریاست جیسے تیسے کر کے جیت رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی ہوں، سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہوں، ایمان مزاری ہو، یاسمین راشد ہو یا کوئی اور سیاسی رہنماء ۔ جیسے ہی عدالتیں ان سیاستدانوں کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں، حکومت اگلے ہی لمحے اُنہیں دوبارہ دبوچ لیتی ہے۔ جیسے گزشتہ جمعہ کے روزلاہور ہائی کورٹ سے رہائی کا حکم نامہ لینے کے بعد پولیس اہلکار جب پرویز الٰہی کو ان کے گھر چھوڑنے جا رہے تھے تو ان کی گاڑی کو اہلکاروں نے روک کر انہیں پھر سے گرفتار کر لیا۔ جب اہلکار وں نے چودھری پرویز الٰہی کو پولیس کی گاڑی سے نکال کر گود میں اٹھائے لیے جا رہے تھے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ’’اب جیل سے چودھری پرویز الٰہی کی ہڈیاں ہی باہر آئیں گی‘‘۔اس ’’بیان‘‘پر خاصی بحث بھی ہو رہی ہے اور ملک بھر میں تشویش بھی ہو رہی ہے کہ وطن عزیز میں چل کیا رہا ہے؟ آپ اس سے بھی بڑھ کر یہ دیکھیں کہ ادارے بھی اس وقت بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، آپ چوہدری صاحب ہی کے کیس کی مثال لے لیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق جب چودھری صاحب نیب کی حراست میں تھے تو ان کی پٹیشن جسٹس امجد رفیق کی عدالت میں آئی۔جسٹس امجد رفیق نے نیب کو چودھری پرویز الٰہی کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا تاہم نیب کی جانب سے عدالت کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹال دیا جاتا۔ گزشتہ جمعہ کو بھی جب چودھری پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تو جج صاحب نے آرڈر جاری کیا کہ حکومت کو چھوڑیں، آپ پرویز الٰہی کو پیش کریں۔ حکومت نیب کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تو نہ کرے، پرویزالٰہی کو ایک گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش کریں۔ اگر پیش نہ کیا گیا تو ڈی جی نیب لاہور کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔ اس عدالتی حکم پر نیب نے ایک گھنٹے میں پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش کر دیا۔اس کے بعد جسٹس امجد رفیق نے پرویز الٰہی کی فوری رہائی کا حکم سنایا اور کہا کہ اینٹی کرپشن اور نیب انہیں گرفتار نہیں کرے گی۔ وہیں عدالت میں ہی نیب نے تمام انکوائری مکمل کی اور چودھری پرویز الٰہی کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے جج صاحب سے کہا کہ جب تک تحریری حکم نامہ نہیں جاری ہو گا تب تک میں عدالتی احاطے سے باہر نہیں جاؤں گا کیونکہ خدشہ ہے پولیس مجھے دوبارہ گرفتار کر لے گی۔ اس کے بعد جج صاحب نے ان کو اپنے چیمبر میں بلا لیا اور تحریری حکم نامہ تیار کروا کر نیب اور اینٹی کرپشن کے حوالے کیا گیا۔چودھری صاحب نے جج صاحب سے مطالبہ کیا کہ آپ پولیس سے کہیں کہ وہ اپنی نگرانی میں مجھے گھر چھوڑ کر آئے۔ جج صاحب نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت میں موجود 2 ڈی آئی جیز علی رضوی اور عمران کشور کو ہدایت دی کہ پولیس نگرانی میں انہیں گھر پہنچا کر آئیں۔ اس پیش رفت پر وکیل لطیف کھوسہ سمیت وکلا نے جشن منایا اور نعرے بازی کی۔دونوں ڈی آئی جیز نے چودھری پرویز الٰہی کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور انہیں لے کر روانہ ہو گئے۔ اس گاڑی کے آگے اور پیچھے پولیس کی گاڑیاں تھیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے گھر کے قریب ظہور الٰہی روڈ پر ان گاڑیوں کو روک لیا گیا۔ وہاں پہلے سے ایک گاڑی کھڑی تھی جس میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ وہ اس گاڑی تک آئے جس میں چودھری صاحب تھے اور انہیں سختی سے کہا گیا کہ باہر نکلیں۔ اس کے بعد ان اہلکاروں نے پرویز الٰہی کو گود میں اٹھایا اور تیزی سے گاڑی کی جانب لے گئے۔ اس دوران دونوں ڈی آئی جی حیران پریشان بلکہ بظاہر ہکا بکا کھڑے تھے اور لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کسی پولیس اہلکار کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ انہوں نے سوچا کہ ابھی ممکنہ طور پر پرویز الٰہی کو سول لائنز پولیس سٹیشن لے جا کر پہلے ان کی گرفتاری ڈالی جائے گی، پھر انہیں جیل لے جایا جائے گا۔ جب یہ اہلکار سول لائنز پولیس سٹیشن پہنچے تو وہاں ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ اسی دوران افواہ پھیلی کہ ایئرپورٹ پر ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھیجنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ وہاں گئے تو وہاں بھی کچھ ہاتھ نہ لگا۔ پولیس اور وکلا کو چکما دے کر اسلام آباد پولیس کے اہلکار اتنی دیر میں چودھری پرویز الٰہی کو لے کر بذریعہ موٹروے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔چودھری پرویز الٰہی کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا اور انہیں 1 مہینے کے لیے اٹک جیل میں قید کیا جا چکا ہے۔ اب انہیں لاہور ہائیکورٹ نے آج پیش کرنے کا حکم دیا ہے،جبکہ ساتھ ہی آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس بھی دے دیا گیا ہے۔اور بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اُنہیں سخت طبیعت ناسازی کی بنا پر پمز ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔ پھر اُن کے کیسز میں نگران حکومت کو چیک کریں کہ وہ کس قدر بے بسی کا اظہار کر رہی ہے، اس سارے معاملات پر نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی فرماتے ہیں کہ پرویز الٰہی کی گرفتاری کا معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے درمیان ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ملکی قوانین کے تحت کام کرتے ہیں، اگر کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ملک میں عدلیہ بھی آزاد ہے اور میڈیا بھی۔انہوں نے مزید فرمایا کہ ملک میں ہر ایک کو اظہار رائے اور تنقید کا حق ہے، ہم کسی سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتے لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ جس چیز کو درست سمجھیں وہ بلا خوف و خطر سامنے رکھیں۔ بہرکیف قصہ مختصر کہ خدانخواستہ اگر پرویز الٰہی کو دوران حراست کچھ ہو جاتا ہے کہ تو کیا یہ ملک ایک بار پھر کسی بڑے سانحے سے نہیں گزرے گا؟ خدارا فیصلہ کرنے والے اس قوم پر رحم کریں، اس ملک پر رحم کریں۔ جہاں کمٹمنٹ کرنی ہے وہاں کریں، ملکی معیشت کے ساتھ کمٹمنٹ کریں، ڈالر کے ساتھ کریں، عوام کے ساتھ مخلص ہوں اور سب سے اہم بات کہ اس ملک کے ساتھ مخلص ہوں۔ اس طرح ہراساں کرنے کے عمل کو تو ہم 1979ء سے برداشت کر رہے ہیں، میرے خیال میں یہیں بس کردینی چاہیے اور ملک کا سوچنا چاہیے۔ شفاف انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔ اور رہی بات پرویز الٰہی کی تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ پنجاب کے محسن ہیں، اُنہیں تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پنجاب میں ہوئے ترقیاتی کام آج بھی اُن کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ٭٭٭٭٭