دنیا کی 20سب سے بڑی معیشتوں کے ممالک کی تنظیم جسے ’’جی20‘‘ کہا جاتا ہے، کا سربراہی اجلاس بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتہ اور اتوار کو ہوا۔ جی20 میں امریکہ، روس، چین، بھارت، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو،سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکیہ، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ بیشتر ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم اس اجلاس میں شریک ہوئے لیکن چین اور روس کے صدور نے اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ چینی صدر کی جگہ چین کے وزیراعظم اور روسی صدر کی جگہ روس کے وزیر خارجہ نے ان کی نمائندگی کی۔ جی20 کے صدر کے طور پر بھارت نے بنگلہ دیش، مصر، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس کو بھی مہمان کے طور اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن پاکستان کو بطور مہمان بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ اگر اس گروپ کی تاریخ پر طائرانہ سی نظر ڈالیں تو اس تنظیم کو ایشیائی معاشی بحران کے بعد 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی سالوں میں اس کے اجلاس میں رکن ممالک کے وزرا خزانہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنر شریک ہوتے تھے لیکن 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اسے سربراہی اجلاس میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس کا پہلا سربراہی اجلاس 2008 میں واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا۔ جی20 کا سربراہی اجلاس سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ اس کی سربراہی باری باری سبھی رکن ممالک کے پاس آتی ہے۔آئندہ اجلاس کی سربراہی برازیل کے پاس ہو گی۔ اس گروپ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت انھیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ویسے تو اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر غور کرنا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دیر پا ترقی، صحت، زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہوتے گئے۔خیر حالیہ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق مذہبی عقائد، اظہار رائے کی آزادی اور پر امن اجتماعات کے حق پر زور دیتے ہوئے ہر قسم کی عدم برداشت، مذہبی عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہیں۔اعلامیہ میں لوگوں کے خلاف مذہبی منافرت کی کارروائیوں اور مقدس کتابوں اور علامات کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں تمام ممالک نے یوکرین میں جنگ پر بھی اظہار تشویش کیا اور تمام ملکوں پر زور دیا گیا کہ یوکرین تنازع میں دوسرے ملک کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے طاقت کے استعمال سے باز رہا جائے۔اس اعلامیے کی خاص بات یہ تھی کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے والے کثیر القومی ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان بھی ہوا ہے جس کے بعد اب بھارت چینی طرز کی ’’راہداریاں‘‘ بنانے کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔ اور اس حوالے سے یورپی یونین، بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکا نے ایک یادداشت پر دستخط بھی کیے ہیں۔ یعنی منصوبے کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آپس میں ریلوے کے ذریعے جوڑنا اور انہیں بندرگاہ کے ذریعے بھارت سے جوڑنا ہے۔معاہدے سے خطے کے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو فائدہ پہنچے گا اور اس سے عالمی تجارت میں مشرق وسطیٰ کیلئے اہم کردار سامنے آئے گا۔یہاں سوال لیکن یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ اور روایتی حریف ملک میں جی20 اجلاس ہوا ہے اور پاکستان کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے کیونکہ پاکستان جی 20 ممالک میں شامل نہیں۔ یہ وقت یہ سوچنے کا ہے کہ بھارت نے ایسا کیا کِیا کہ آج وہ نہ صرف جی 20ممالک کا حصہ ہے بلکہ اس کی صدارت بھی کر رہا ہے جبکہ اس وقت پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں۔ ابھی بجلی کے بلوں کا صدمہ کم نہیں ہوا کہ گیس کی قیمتیں بڑھانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔اور رہی بات پاکستانی معیشت کی تو یہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں سوویں پوزیشن سے 157ویں نمبر پر چلی گئی ہے۔ لیکن خدا کی پناہ کے ہم ابھی بھی بھارت کے ساتھ مقابلے کا چورن بیچ رہے ہیں۔ جبکہ ٹاپ 20پوزیشن تو دور کی بات ہم اگلے 100نمبرز پر بھی نہیں ہیں۔ لیکن باتیں ہم ایسی ایسی کر جاتے ہیں کہ جیسے ہم دنیا کے سب سے بڑے تیس مار خان ہیں۔ جبکہ دنیا ہمیں کسی کھاتے میں نہیں لکھتی۔ میری بھانجی گزشتہ دنوں انڈونیشیا کے شہر مالی میں گئی تو وہاں Randomlyلوگوں سے چٹ چیٹ ہوئی تو اُسے یہ سُن کر خاصی حیرانی اور افسردگی بھی ہوئی کہ لوگ پاکستان کے بجائے انڈیا کو زیادہ جانتے ہیں، جب میری بھانجی نے اُنہیں کہا کہ میں پاکستانی ہوں، تو انہوں نے برملا! کہا کہ اوہ ! انڈین!۔۔۔ یعنی آپ انڈین ہیں۔ مطلب! دنیا آپ کو مذہب کے نام سے نہیں جانتی بلکہ آپ کو کارکردگی کی بنیاد پر جانتی ہے۔لوگ آپ کو انصاف کے نام پر جانتے ہیں، لوگ آپ کو قربانیوں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ لوگ آپ کو انسانیت کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی بھی نہیں جانیں گے کہ آپ نے مذہب کی کتنی خدمت کی ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو آدھے سے زیادہ دنیا کے اسلامی ممالک بھی اپنی پہلی ’’ایٹمی قوت‘‘ کو نہیں جانتے ہوں گے۔ الغرض اس وقت بھارت ہو، سعودی عرب ہو یا امریکا و چین سبھی اپنے اپنے مفادات کو فوقیت دے کر آگے بڑھ رہے ہیں، سبھی ممالک ایک دوسرے کی مارکیٹ کی اہمیت کو جانتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذاایسے میںایسے میں انڈیا ان کے سامنے ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے اور اسی لیے ان کے لیے انڈیا اہمیت رکھتا ہے۔جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی سال 2030 تک انڈیا کی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالر تک لے جانے کی بات کر رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھی انڈیا کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ دوسری جانب سعودی ولی عہد بھی چاہتے ہیں کہ دنیا سعودی عرب کو تیل کی کمائی کرنے والے ملک کی حیثیت سے جاننے کے بجائے اُسے نئے کام سے پہچانیں۔ اور وہ نیا کام ’’سعودی عرب نیوم پراجیکٹ‘‘ ہے۔ جس کا بجٹ 500 ارب ڈالر (تقریباً 37 لاکھ کروڑ روپے) ہے۔ اس کے لیے وہ انڈیا سے ٹیلنٹ اور سرمایہ کاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انڈیا کی مدد سے وہاں ہائیڈروجن پلانٹ پر کام بھی شروع ہو گیا ہے۔لیکن ابھی تک سعودی عرب نے پاکستان سے ایسی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے، یہاں قیادت کا فقدان ہے، یہاں وہ کس سے بات کرے؟ یہاں بات چیت کی گارنٹی دینے والا کون ہے؟ یہاں کی انویسٹمنٹ کی گارنٹی دینے والا کون ہے؟ کیوں کہ سعودی عرب جانتا ہے کہ یہاں ایک سیاستدان کی لینڈ کروزر اگر سگنل پر کھڑے سپاہی کو کچلتی ہوئی گزر جائے تو کسی میں ہمت نہیںکہ اسے سزا دے سکے؟ یہاں سانحہ بلدیہ ٹائون کا مجرم بھی 10سال سے مفرور ہے، یہاں سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان بھی آزاد اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔اس لیے یہ ملک ابھی مقابلہ جیتنا تو بہت دور ،،، دوڑ میں بھی شامل ہونے سے گریزاں ہے!