8 فروری 2024ء کو ملکی تاریخ کے بارہویں عام انتخابات ہوئے، تمام تر خدشات، تحفظات، پر اسرار اور پرزور رکاوٹیں ان انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ ملکی آئین و قانون کی منشا کی خلاف ورزی کا بھی بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ 90 روز کے اندر اندر انتخابات نہ کروانا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔قصہ بہت طویل ہے ان انتخابات تک پہنچنے کا۔ اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہ انہوں نے اپنی آبزویشن میں کہہ دیا کہ 8 فروری کو الیکشن ضرور ہوں گے، سو یہ بات پتھر پر لکیر ثابت ہوئی ۔ 8 فروری کو ملک کے انتہائی پرامن انتخابات ہوئے مبصرین کے مطابق ٹرن آوٹ بھی 50 فیصد کے قریب رہا یعنی 25 کروڑ کی آبادی میں سے 12 کروڑ سے زائد اہل ووٹرز میں سے تقریباً 6 کروڑ لوگوں نے ان انتخابات میں ملک کے طول و عرض سیووٹ ڈالا، امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ موسم کی صورت حال بھی خوشگوار رہی۔ صبح 8 بجے ہی ہلکی ہلکی دھوپ نے ووٹرز کو پرجوش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اکا دکا واقعہ کے علاوہ کوئی غیر معمولی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا جو کہ ان انتخابات کی سب سے زیادہ خوش آئند بات ہے۔ شام 5 بجے پولنگ کے وقت میں اضافے کا بھی کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا یوں پانچ بجے پولنگ کا عمل اختتام پذیر ہوا، اس دوران ملک میں انٹر نیٹ کی بندش رہی، الیکشن کمیشن کے مطابق 9 فروری کو رات 2 بجے تک تمام نتائج کا اعلان کرنے کا کہا گیا تھا جو نہیں ہو سکا اس8 فروری بھی 9 مئی کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گیا۔ جس کے جوابات قوم ڈھونڈتی رہے گی اور مانگتی رہے گی اور پھر اگلے انتخابات کا وقت قریب آ جائے گا اور ہم اسے فراموش کر کے اگلے انتخابات کے صاف و شفاف ہونے کی توقع لئے پر جوش نظر آئیں گئے۔ ملکی میڈیا کے تمام ذرائع نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی. سنگل سنگل پولنگ اسٹیشن کے 2،3 سو ووٹ کے نتائج میں آگے اور پیچھے کی گردان شروع کر دی، یہاں سے ماحول میں گرما گرمی کا عنصر شامل ہوا کیونکہ ایک حلقہ انتخاب کے چار سو کے قریب پولنگ اسٹیشنز کے لاکھوں ووٹرز کے حق رائے دہی کے پچاس فیصد نتائج آنے سے قبل ہی آگے اور پیچھے کا واویلا شروع ہو گیا یوں قوم کی نبض تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی، ابھی نتائج کا پراسس مکمل نہیں ہوا تھا ابھی سرکاری طور الیکشن کمیشن کی طرف سے نتائج مکمل نہیں ہوئے کہ جیتنے اور ہارنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ پھر امیدواراننے پولنگ ایجنٹوں نے فارم 45 اور 47 ہاتھوں میں پکڑ لئے، اور ان کے مطابق ہی اپنی اپنی سیٹوں کو گننے لگے، یہیں سے دھاندلی کا شور مچا ۔ ملک میں عام انتخابات کے بعد جھوٹ کی آندھی اور دھول مٹی سے بھرپور ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا ۔ پاکستان کی بڑی بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت نے 100 سے زیادہ نشتیں حاصل نہیں کی ہیں مگر175 کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ فارم 45 کے مطابق دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اب عالمی میڈیا کو آواز دی جا رہی ہے۔ عوام الیکٹرانک، سوشل میڈیا پر اینکرز/ یو ٹیوبرز ملک کی بدنامی اور جگ ہنسائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ توجہ کریں اگر یہ انتخابات نہ ہوتے تو کیا ہوتا شاید اس سے بھی بد تر صورتحال ہوتی، ایک جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو الیکشن سے قبل ہی فیورٹ ماحول ملنے کا جو تاثر تھا اگر وہ برقرار رکھنا ہوتا پھر انتخابات منصفانہ نہ ہوتے اور نہ ہی مسلم لیگ ن ہارتی، ہم نے اپنے ایک کالم میں ایک ایک پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ عام انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بنے گی۔ مسلم لیگ ن کا وزیر اعظم ہو گا پنجاب میں مسلم لیگ ن سندھ میں پیپلز پارٹی بلوچستان میں مخلوط کے پی کے میں بھی مخلوق حکومت بنے گی۔ ان انتخابات میں ایک جماعت انتخابی نشان سے بھی محروم رہی اس جماعت کو کھلے عام الیکشن مہم بھی چلانے کا موقع نہیں ملا قیادت جیل میں تھی بطور جماعت الیکشن لڑنے سے روک ضرور دیا گیا۔یہ عام انتخابات کے صاف و شفاف انتخابات پر ایک بڑا سوالیہ نشان رہے گا۔ 2024ء کے عام انتخابات کے بعد تقریباً ملک کے مختلف شہروں میں دھندلی کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے ہیں سندھ میں جے ڈی اے نے بہت بڑا پاور شو کیا ہے۔ تمام مقررین نے منیڈیٹ چوری کرنے کی بات کی ہے پیر صاحب پگاڑا نے احتجاج بھی کیا ہے لیکن پاک فوج کے بارے میں کوئی نامناسب بات نہیں کی ہے۔ امریکہ سے برطانیہ تک مبصرین نے ان انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جن کو حکومت نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ایم کیو ایم ق لیگ بلوچستان کی چھوٹی جماعتیں نئی حکومت کے قیام کے لئے سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کے درمیان دوریاں کم ہو گئی ہیں۔ مولانا اور کپتان ماضی کو یاد ماضی عذاب ہے یا رب کی طرح بھلا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ نجانے کتنے یو ٹرن اور لینے پڑیں گے ہم تمام جماعتوں کے قائدین سے دست بستہ التجا کرتے ہیں کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں اور ملک میں ہنگ پارلیمنٹ جو کہ کمزور ترین نظام حکومت ہوتا ہے قائم ہونے کی صورت میں بھی اپنے اپنے ماضی کو بھلا کر ملک کی خاطر قوم کی خاطر جمہوریت کی خاطر آگے بڑھ کر ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں اور پھر حالات بہتر ہونے کی صورت میں مڈ ٹرم انتخابات کی صورت میں قوم سے رجوع کر یں۔ اسی طرح ہم اس تقسیم در تقسیم کی فضا سے نکل سکتے ہیں. اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے۔