’’ تیس سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوں اور اس بات پر مجھے فخر ہے ۔‘‘ یہ بیان گزشتہ روز سابق ہو جانے والے وزیر اعظم شہباز شریف کا ہے جو تقریبا سولہ ماہ اتحادی حکومت کے سربراہ رہے ہیں اور اسمبلی کی مدت کی تکمیل پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ کاش شہبازشریف ایک سیاستدان کی حیثیت سے یہ کہتے کہ میں عوام کی آنکھوں کا تارا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے تو مجھ سمیت عوام کے لئے بھی یہ باعث ا فتخار ہوتا تاہم وہ ا س سچائی کے جرا ت مندانہ اظہار پر داد کے ضرور مستحق ہیں۔( شہباز شریف کے اس بیان کے بعد مریم اورنگزیب نے یہ وضاحت دی ہے کہ شہباز شریف کا یہ بیان ایک طنز یہ بیان ہے ) بہر حال کچھ بھی ہو شہباز شریف کا یہ بیان محض ایک بیان ہی نہیں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ پر محیط ہے ۔ لیاقت علی خان کی وزارت عظمی سے لے کر شہباز شریف کے وزیر اعظم ہونے تک پاکستان کے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کبھی منظر اورکبھی پس منظر میں ہمیشہ فعال رہی ہے۔ابھی حال ہی میں اسمبلی کی مدت تما م ہونے پر نگران حکومت کے لئے وزیر اعظم کے انتخاب کا معاملہ سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں موجود قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کے مابین تین دن تک زیر غور رہا ۔ اس سلسلے میں مختلف نام میڈیا کی زینت بنتے رہے مگر تیسرے دن جو نام حتمی طور پر طے ہوا اور جس پر سب کو حیرت بھی ہوئی وہ کسی بھی مرحلے پر سامنے نہیں آیا تھا۔شنید یہ ہے کہ وہ نام ’’کہیں ‘‘ اور سے فیصلہ کی صورت شہباز شریف اور راجہ ریاض تک پہنچا تھا اور جسے ہر دو نے فورا منظور بھی کرلیا ۔ اسٹیبلشمنٹ ریاست کے اداروں میں سے ہی ہے اور اس کے وظائف آئین کے تحت متعین اور مشروط ہیں ۔اسی آئین کے مطابق سیاسی ادارے وجود میں آتے ہیں اور حکومتوں کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔پاکستان کے آئین کے مندرجات کے مطابق سارے ادارے جمہوری سیاسی حکومتوں کے اتباع کے پابند ہیں۔ مگر پاکستان میں صورتحال مختلف رہی ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں اگرچہ سیاسی حکومتیں جمہوریت کا نام تو ضرور لیتی رہی ہیں مگر اپنی ساخت اور کارکردگی میں جمہوریت کو اختیار کرنے میں ناکام رہیں۔بدلتی ہوئی سیاسی وفاداریاں،کمزور سیاسی جماعتیں اور اقتدار کی غیر جمہوری کشمکش نے سیاست دانوں اور سیاسی اداروں کو کمزور کئے رکھا جس سے بیو روکریسی اور فو ج کو یہ موقع ملا کہ وہ دخل اندازی کرتے ہوئے حکومت و سیاست کے معاملات کو بتدریج اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔غلام محمد ،جو تقسیم ہند سے پہلے انڈین سول سروس میں مالیات کے شعبہ سے متعلق تھے ، ان کے گورنر جنرل بننے سے اس کا آغاز ہوا اور پھر چوہدری محمد علی ( بیورو کریٹ)، میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان سیاسی اور حکومتی مناصب پر براجمان ہوتے رہے۔1951سے 1958کے دوران خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرہ،حسین شہید سہروردی ،آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون کی سیاسی حکومتیں ضرور بنیں مگر اصل اقتدار اور اختیار فوج اور بیوروکریسی کے ہاتھوں میں رہا ۔جب چاہا حکومت بنائی اور جب چاہا حکومت ختم کرادی۔بار بار حکومتوں کے بننے بگڑنے کے اس عمل سے سیاسی ادارے کمزور ہوتے رہے ،جمہوری عمل تار تار ہوا اور سیاست دان اپنی اہمیت گنوا بیٹھے اور پھر 1958 میں حالات اس نہج پر پہنچا دیئے گئے کہ فوج کے لئے براہ راست ملک کا اقتدار لینا آسان ہو گیا ۔وفاق اور صوبوں میں سیاسی حکومتیں بر طرف کر دی گئیں ا ور آئین منسوخ کرتے ہوئے ملک میں ماشل لاء نافذ کردیا ۔آئین جس کی تیاری میںسیاست دانوں نے نو سال لگادئیے تھے محض ڈھائی سال ہی بمشکل چل سکا۔ پاکستان کی سیاست کے ابتدائی سات ( 1958 ۔ 1951 ) برسوں میں حکومت و سیاست کے معاملات میں سیاست د انوں نے جس کمزوری کا مظاہرہ کیا اس کا نتیجہ بالآخر ماشل لاء کی صورت ہی نکلنا تھا سو ایسا ہی ہوا اور فوج نے 1958میں سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کرتے ہوئے مکمل اقتدار حاصل کر لیا اور سیاسی اداروں سے جمہوریت کا سفر تمام ہوا۔اس کے بعد پھر فوج اپنے اس کردار سے دستبردار نہیں ہوئی ۔پچھہتر سال کی سیاسی تاریخ میں فوج کی مداخلت کبھی مارشل لاء کی صورت اور کبھی پس منظر میں رہ کر مو ثر اور فیصلہ کن طاقت کے طور پر موجود رہی ۔ نومبر 2022 میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی سبکدوشی کے موقع پر یہ اعتراف کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ فوج ہمیشہ سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے البتہ انہوں نے جاتے جاتے فوج کو یہ مشورہ ضرور دیا کہ اب بس بہت ہو چکا فوج کو سیاست سے الگ رہنا چاہیئے۔فوج کے ان ہی اثرات کے باعث سیاسی قائدین ہمیشہ فوج کی حمایت کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں اور جس کا اعتراف سولہ ماہ وزیر اعظم رہنے والے محترم شہباز شریف نے خود کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ سمجھتے ہوئے فخر کا اظہار کیا ہے۔ اس اعلانیہ اظہار کے بعد جتنی بھی وضاحتیں کی جائیں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاست دانوں کے اس تعلق کی نفی نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام ایک حیرت کدہ بن چکا ہے جس میں سیاسی جماعتیں ، انتخابات ، پارلیمنٹ اور آئین سب کچھ موجود توہیں مگر جمہوری سیاسی اقدار ناپید اور سیاست دان بے توقیر !! سیاست دان جب تک عوام کی آنکھوں کا تارہ نہیں بنیں گے انہیں سیاسی نظام میں اعتبار اور وقار حاصل نہیں ہوگا۔اگرچہ اس میں ہے محنت زیادہ !!! ٭٭٭٭٭