تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا تو مل گیا ہے۔ ہمارے ملک کی کل آبادی250 ملین کے قریب ہے جس کی پارلیمنٹ، عدلیہ انتظامیہ اور ایک مروّجہ آئین موجود ہے۔ چھ لاکھ ریگولر آرمی ہے ملک ایٹمی طاقت ہے۔ مقتدرہ اور عمران خان دونوں کو ایک لائن لگانی ہوگی Enough is Enough۔ پیشاور ہائی کورٹ کا انتخابی نشان کے بارے میں فیصلہ ہو یا پھر منگل والے روز کا سپریم کورٹ کا سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں دبائو ڈر و خوف تقسیم کے باوجود حالات کو زبردستی کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف بحیثیت ایک سیاسی جماعت اس وقت واحد متوسط طبقے کی اکثریتی وفاق کی حامل جماعت ہے جو تمام اکائیوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ عرصے سے خیبرپختونخوا کے لوگوں نے اپنی ایک الگ سوچ اپنا رکھی ہے اور یہ حساس خطرناک رحجان ہے۔ بیرسٹر گوہر کو تحریک انصاف کا چیرمین مقرر کر کے عمران خان نے پشتونوں کو ان کی تحریک انصاف کے ساتھ وفاداری کا صلہ پارٹی کی اونرشپ کی صورت میں دے دیا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارت کی نظر ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں مسلسل دہشت گردانہ کارروائیاں ہورہی ہیں۔ بیرونی طاقتوں کی منشا پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا ہے۔ انہیں پاکستان کی مضبوط فوج اور ہمارے ایٹمی اثاثے کھٹکتے ہیں۔اب اگر انتخابات 8 فروری سے آگے چلے گئے تو بڑا آئینی بحران پیدا ہوجائے گا۔ نگران حکومتوں کی معیاد ختم ہوچکی ہے جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر چل رہا ہے۔ معیشت تباہ حال ہے۔ نگرانوں کوملک کے اندر اور باہر کوئی سنجیدہ نہیں لیتا اور نہ ہی ان پر کوئی اعتماد کرتا ہے۔ ان کے سارے اچھے بْرے کام اسٹبلشمنٹ کے کھاتے میں جارہے ہیں۔ ان حالات میں عوام بے چینی اور فرسٹریشن میں اداروں سے دوریاں پیدا ہو رہی ہیں عوام اور فوج لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کا ایک پیچ پر ہونا پاکستان کے وجود کے قائم رہنے کی ضمانت ہے۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا ایک انٹرویو حال ہی میں سننے کا موقع ملا انہوں نے بھی کم و بیش یہی باتیں عمران خان اور اسٹبلیشمنٹ کے گوش گزار کی ہیں کہ ایک ماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان بریک تھرو لازمی ہے وگرنہ حالات بے قابو ہوجائیں گے۔ بقول جنرل لودھی عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف جناب عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے دوران پی ٹی آئی کے ان مظاہروں کو روکوایا ہے جو امریکہ میں چیف آف آرمی سٹاف کے دورے کے دوران شیڈول تھے جبکہ عمران خان نے جیل سے پی ٹی آئی کے ورکروں کو پاک فوج کے خلاف کسی پلیٹ فارم پر بھی ہرزہ سرائی سے بھی سختی سے منح کردیا ہے یہ مثبت اقدامات ہیں جن کو سراہنا چاہیئے۔ عمران خان پر جتنی سختیاں کی جارہی ہیں اس کا عوام میں الٹا اثر پڑ رہا ہے ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے جو ہمارے ملک کے معاشی اعداد وشمار دیئے ہیں وہ دیکھ لیں 25 کروڑ کی آبادی میں سے 9 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 2 کروڑ 80 لاکھ بچے وہ ہیں جنہوں نے سکول کی کبھی شکل نہیں دیکھی۔ 25 لاکھ نوجوان پڑھ لکھ کر ہر سال روزگار کے قابل ہو رہے ہیں جنہیں نوکریاں چاہئیں۔ ملک کسی مخصوص سوچ کے دائرے میں نہیں چل سکتا۔ ارباب اختیار کی عقل و دانش زیادہ ہوگی لیکن تسلیم اس لئے نہیں کہ نتائج ملک اور عوام کی بہتری کے لئے دکھائی نہیں دیتے۔ ایک شخص کو اقتدار میں نہ آنے دینے کے لئے ملک کو اس طرح چلانا کہاں کی دانش اور فہم و فراست ہے۔ افراتفری، نفرت، لاقانونیت اور خوف و ہراس کے اس ماحول میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ تارکین وطن ملک کے بلامعاوضہ سفیر ہیں جو ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں وہ ملکی معاملات سے لاتعلق ہو گئے ہیں ہر طرف ایک سوال ہم کدھر جا رہے ہیں؟ اور دنیا کدھر جا رہی ہے؟۔ عمران خان 92 ورلڈکپ کر کٹ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے ، نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال کی وجہ اور سابق وزیراعظم کی حیثیت سے بہرصورت پاکستان کی تاریخ میں زندہ اور زیر بحث رہے گا۔ سیاست میں اس کی غلطیاں، انا ضد اور جذباتی فیصلے اپنی جگہہ موجود ہیں جو کسی صورت بھی لائق تحسین نہیں۔ پھر بھی ہونا تو یہ چاہیے کہ اسے بھی باقی جماعتوں کے سربراہان کی طرح اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ جن معاشروں نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنے لئے ایک نظام کو وضع کیا ہے اور سختی سے اس پر ملک کی ساری اکائیوں نے عملدرآمد کرنے کی ٹھانی ۔ اپنی اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس کے آگے سرنڈر کیا اسی لئے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے ۔ ان ترقی یافتہ معاشروں میں شخصیات کسی طور پر بھی طاقتور نہیں بلکہ ریاست اور اس کے قوانین طاقتور ہیں ۔عمران خان اور پی ٹی آئی سے لڑائی کی وجہ سے جو ملک کا نقصان ہو رہا ہے جو کشمکش ہے اس کا جلد خاتمہ ضروری ہے۔ ساری جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی آزادنہ اجازت دی جائے۔ سیاست دانوں کو ملک چلانے دیا جائے تاکہ ہم بھی عظیم ملک اور ہم ایک ملک عظیم ملک قوم بنیں۔ اپنے لوگوں کی چیخیں نکالنے اورمیڈیا کا گلہ دبانا ملک اور قوم کو پتھر کے زمانے میں دوبارہ دھکیلنے کے مترادف ہے۔