انتخابی نتائج آنے کے بعد سیاسی جماعتوں نے آئندہ حکومت سازی کے لئے مشاورت و جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔اس سلسلے میں سب سے نمایاں پیشرفت نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعاون پر اتفاق ہے ۔دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو اپنے مطالبات اور دوسرے کے لئے مراعات کا فارمولہ پیش کیا ہے۔رپورٹس کے مطابق نواز لیگ 80 کے قریب ارکان سے مرکز میں حکومت بنانے کی خواہاں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے 54 ارکان کی حمایت مل جانے سے وہ ایک مخلوط حکومت بنا سکتی ہے۔نواز لیگ نے وزارت عظمیٰ ملنے کی صورت میں پیپلز پارٹی کو صدر، سپیکر شپ، چیئرمیں سینٹ اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ دینے کی پیشکش کی ہے۔پیپلز پارٹی کے حلقوں کے مطابق بلاول وزارت عظمیٰ اور سات وزارتیں ملنے کی صورت میں نواز لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں۔اس دوران ایک اہم سرگرمی آزاد اور تحریک انصاف کی حمایت سے جیتے نومنتخب ارکان کی نواز لیگ میں شمولیت کی سورت میں نظر آ رہی ہے ۔سیاسی مبصرین اسے سیاسی اخلاقیات کے منافی اور ہارس ٹریڈنگ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔آزاد امید واروں کی اکثریت کے باعث صورتحال یہ بن گئی ہے کہ پی ڈی ایم جماعتیں ایک بار پھر حکومت بنانے کی طرف پیشقدمی کر رہی ہیں۔قانونی اعتبار سے بہت سے اگر مگر موجود ہیں لیکن جس طرح سے سیاسی جماعتوں نے اپنے فائدے کی خاطر ماضی میں ریاست اور سماج کے اجتماعی مفاد کی قربانی دی ہے اسی طرح موجودہ جوڑ توڑ کئی لحاظ سے سیاسی اخلاقیات پر سوال اٹھا رہا ہے۔ حالیہ انتخابات میںووٹروں نے منقسم مینڈیٹ دیا ہے جس سے ہنگ پارلیمنٹ وجود میںآئی ہے۔ 265 قومی حلقوں کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں، اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پھر پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی آزاد امیدواروں نے کے پی میں کلین سویپ کیا اور پنجاب میں زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا۔مسلم لیگ (ن) کی جیت زیادہ تر پنجاب میں ہوئی، جب کہ پیپلز پارٹی نے اپنے روایتی گڑھ سندھ پرقابو برقرار رکھا، پی پی پی نے بلوچستان میں بھی اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے الگ الگ فتح کا اعلان کیا لیکن دونوں میں سے کوئی بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکا جس کی وجہ سے کوئی بھی پارٹی اپنے طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ یہ حکومت کی تشکیل کو مشکل بنا رہا ہے، بلاشبہ حکومت سازی میں سخت اور طویل سودے بازی اور سیاسی ہارس ٹریڈنگ شامل ہوگی۔ مختلف گروہ اور ادارے اپنے اپنے اخلاقی معیاروں کے ذریعے طاقت تلاش کرتے ہیں۔ مذہبی طبقات اپنے آپ کو اخلاقیات کے محافظ سمجھتے ہیں۔ سکیورٹی ادارے اور اب عدلیہ پر بھی ایک سیاسی اخلاقی نظم قائم کرنے کی ذمہ داری محسوس کی جارہی ہے۔ ان اداروں نے ایک دوسرے کے اخلاقی معیاروں کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی ہے۔سیاسی اخلاقیات پر پہلا حملہ نچلی سطح پر ہوا ہے۔گالی گلوچ، بے بنیاد اور مضر رساں الزامات کی بوچھاڑ اور مخالفین کا مذاق اڑانا پاکستان میں پہلے ہی سیاسی اصولوں کے طور پر قبول کیا جا چکا ہے۔ پاکستان میں اخلاقیات کے ضابطیکو کچھ مخصوص طاقتیں استعمال کرتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست کی مقامی لغت میں اخلاقیات کا مترادف غیر اخلاقی نہیں بلکہ بدعنوانی ہے۔ سیاست اور سیاستدانوں کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ بدعنوان ہیں، اور عوامی خزانے کو لوٹتے اور غلط استعمال کرتے ہیں۔ کرپشن ایک بیماری اور جرم ہے اور جو بھی اس کا ارتکاب کرے اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پھر بھی ایک منتخب اخلاقی نقطہ نظر کو بروئے کار لانا نہ صرف سیاسی اور قانونی ڈومینز کو دھندلا دینے کا خطرہ رکھتا ہے بلکہ غیر جمہوری قوتوں کو سیاسی جگہ بھی فراہم کرتا ہے۔حکومت سازی کے دوران عہدوں کی تقسیم کے ساتھ لازم ہے کہ قومی ایجنڈے پر بھی حتمی کردار طے کر لئے جائیں۔حالیہ عام انتخابات میں جہاں کئی معاملات افسوسناک کہلاتے ہیں وہاں کچھ بہت حوصلہ افزا چیزیں سامنے آئی ہیں۔سیاست کا پہلا مثبت چہرہ مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق کا ابھرا جنہوں نے اپنے مد مقابل کو آگے بڑھ کر مبارک باد اور اپنی شکست تسلیم کی ۔سیاسست کا دوسرا مثبت چہرہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 15 سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار مفتی کفایت اللہ ہیں جنہوںنے کہا کہ این اے 15 کا امیدوار تھا میں کنٹرول روم میں موجود تھا ۔ پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نکلا ہے، اس وجہ سے آزاد امیدوار شہزادہ محمد گستاسپ خان نے کامیابی حاصل کی۔عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے ، اگر عوام کی رائے کا احترام نہیں ہو گا تو یہ ملکی سالمیت پر بہت بڑا سوال ہو گا۔سیاست کا تیسرامثبت چہرہ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا ہے۔جنہوں نے سندھ اسمبلی کی سیٹ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ایس129 پر میں نہیں، پی ٹی آئی والا آزاد امیدوار جیتا ہے، مجھے خیرات کی سیٹ نہیں چاہیے، جس کا حق ہے اسے دیا جائے۔ سیاست کاچوتھا مثبت چہرہ اٹک سے حمید اکبر پی پی3 سے امیدوار تھے ۔انھوں نے یہ کہہ کر دوبارہ گنتی سے دستبرداری اختیا رکی ہے کہ عوام نے پی ٹی آئی کوووٹ دیا ہے لہذا اسے قبول کرتا ہوں ۔سیاست کا پانچواں مثبت چہرہ ثمر ہارون بلور کا ہے جنہوں نے سب سے پہلے آگے بڑھتے ہوئے مد مقابل کو پھول پیش کیے اور مبارک باد دی ۔حکومت سازی کے دوران اگر اخلاقی معیار جس قدر اعلیٰ ہوں گے جمہوریت کا معیار اسی قدر بلند اور خالص ہوگا، سیاسی جماعتوں کو یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔