الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا(بددعائوں) نے کام کیا‘‘ کے مصداق پاکستانی کرکٹ ٹیم ڈھیر ہو گئی ہے اور دائیں بائیں کے نئے پرانے دشمنوں سے ہارنے کے علاوہ 2023ء کے ورلڈ کپ میں اپنے آخری دو میچ سے قبل بدترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم سے بھی موجودہ سرزمین پاکستان کی سوسالہ غلامی کا بدلہ لینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔اس پر تو کچھ لکھنا بھی فضول ہے۔ میں تو ویسے بھی گزشتہ پانچ ہفتوں سے حماس اسرائیل لڑائی پر لکھنا چاہ رہا ہوں کہیں اس میں مذہبی حوالے آ جانے کی وجہ سے لکھنے گریز کرتا جا رہا ہوں، اس لئے کہ ہماری قوم کی اکثریت مذہب کے معاملے میں اپنے اپنے بنائے ہوئے زندان میں قید ہے اور نام نہاد راسخ العقیدگی کی وجہ سے اپنے ہی سطحی خیالات کی اندھی تقلید اور انتہائی شدید جذباتیت کا شکار ہو کر ہر مسئلے کا جائزہ لیتی ہے اور غیر منطقی نتائج اخذ کر کے ان کو ایمان کا درجہ دے کر دوسروں کی منطق بلکہ پیش کئے گئے حقائق کو بھی کوئی اہمیت دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس لئے جب کسی بات کا کوئی فائدہ ہی نظر نہ آئے تو اس کو نہ کرنا ہی بہتر ہے لیکن کیا کریں جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، اس پر کب تک کوئی ذی روح خاموش رہ سکتا ہے؟ سات اکتوبر سے لے کر گزشتہ پانچ ہفتوں میں اسرائیلی بربریت کے ہاتھوں گیارہ ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جن میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق ستر فیصد بچے خواتین اور بوڑھے افراد شامل ہیں،تیس ہزار کے قریب فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں، جن کی بڑی اکثریت زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو کر اپنی زندگی تک خاندان اور قوم پر بوجھ بنی رہے گی۔ کل بائیس لاکھ میں سے پندرہ لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں،جو ہسپتالوں‘سکولوں یا پھر دوسری فلسطینیوں کے ہاں پناہ گزیں ہیں، اس لئے کہ ان کے اپنے گھر تباہ ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ ‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فلسطینی حکومت کے مشترکہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں دو لاکھ بائیس ہزار رہائشی مکانات کو اسرائیل بمباری سے نقصان پہنچا ہے، جس میں سے چالیس ہزار مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔اکہتر 71فیصد پرائمری ہیلتھ کیئر کلینک اور چھتس 36 سے 20بیس ہسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں، جن میں بچوں کا ہسپتال بھی شامل ہے۔ تقریباً اسی تناسب سے سکول بھی تباہ ہو چکے ہیں۔ پانی ‘ خوراک‘ ادویات‘ توانائی ‘ مواصلات اور اس طرح کی دیگر ضروریات تقریباً ناپید ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے کی ترجمان جینز لارکی کے مطابق اگر اس وقت زمین پر کوئی جہنم ہے تو اس کا نام غزہ ہے۔ دوسری طرف حماس کے حملے میں چودہ سو اسرائیل مارے گئے جبکہ ساڑھے پانچ ہزار زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ تین لاکھ کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا پڑا۔ حماس کی راکٹ بازی سے کچھ انفراسٹرکچر بھی متاثر ہوا ہے۔زیادہ تر اسرائیل نقصان سات اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے کے پہلے دن ہوا۔ غزہ سے فلسطینیوں کے زیر کنٹرول دوسرے علاقے یعنی مغربی کنارے کی آبادی کو بھی نقصانات پہنچے ہیں لیکن غزہ کے مقابلے میں وہ ناقابل ذکر ہیں۔ فلسطینیوں کی اندرونی اقتدار کی جنگ میں عملی طور پر غزہ حماس جبکہ مغربی کنارہ فلسطینی صدر محمود عباس کے زیر اقتدار ہے۔محمود عباس جسے دنیا جائز فلسطینی اتھارٹی تسلیم کرتی ہے کا حماس کی سرگرمیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس تمام تباہی کے ہوتے ہوئے کوئی مظلوم فلسطینیوں کا پرسان حال نہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کا حال ہی میں ہونے والا اجلاس دردمندانہ اپیلیں کرنے کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیجی عرب ممالک سمیت مصر اور شام تک ۔۔۔تقریباً پینتالیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں گویا عرب حکمرانوں کی اقتدار میں بقا امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مرہون منت ہے علاوہ ازیں امریکی بحری بیڑے ہر وقت اسرائیل کی حفاظت کے لئے تیار کھڑے ہیں، کسی سے کوئی شکوہ اس لئے نہیں بنتا کہ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ اپنے قومی مفادات حاصل کرنے کے لئے جو مناسب سمجھے وہ کرے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس نے یہ کارروائی کر کے پہلے ہی سے تباہ شدہ فلسطینیوں کے لئے مزید تباہی کے سوا کیا حاصل کیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل غزہ سے فلسطینی آبادی کا زبردستی انخلا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرنا چاہتا ہے اگر ایسا ہے تو کیا حماس نے اسرائیل کا یہ کام آسان نہیں کر دیا ؟ کیا اسماعیل ہانیہ کو ان فلسطینی مائوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں جو اسرائیل بمباری کے شور میں دیتی چلی جا رہی ہیں؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ جب ہمارے نبی پاک ﷺ مکہ میں تھے اور اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ کفار کو جواب دے سکیں، تو آپؐ نے ابوجہل کی طرف سے جان لینے کی نیت سے اپنے اوپر ہونے والے دو حملوں کو برداشت کیا‘ اپنے اوپر پھینکے کوڑے پر صبر کا مظاہرہ کیا۔ بدترین سماجی و معاشی بائیکاٹ کا سامنا کیا۔طائف میں پتھر کھائے‘ صحابہؓ کو دھکتے کوئلوں پر لٹا کر کئے گئے ظلم پر خاموشی اختیار کی۔حتیٰ کہ ابو لہب کی طرف سے اپنی دو بیٹیوں کو دلوائی گئی طلاق بھی برداشت کی ۔ وہ کون سا ظلم ہے جو آخر غزہ کے فلسطینیوں پر کیا جا رہا ہے اور مکی زندگی میں مسلمانوں پر نہ کیا گیا ہو لیکن آپ نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے صحابہؓ کو حبشہ ہجرت پر بھیجا اور پھر صحابہؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت فرما گئے ،جب کفار نے آپؐ سمیت تمام مسلمانوں کی زندگیاں چھیننے کی منصوبہ بندی کی۔ کیا اگر اس وقت آپؐ حماس کی طرح کے جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرتے تو آج دنیا میں پونے دو ارب سے زیادہ لوگ اسلام کی پیروی کر رہے ہوتے؟ یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشکل حالات میں صبر و تحمل بہترین حکمت عملی ہوتی ہے نہ کہ جذباتیت۔یہ بھی فضول توجیح ہے کہ حماس کی کارروائی تو دراصل ظلم کا ردعمل ہے۔ بھئی اگر اسرائیل کا مقصد واقعی غزہ کو فلسطینی آبادی سے خالی کروا کر اسے اپنے قبضے میں لینا ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حماس اشتعمال میں آ کر اسرائیل منصوبے کا راستہ ہموار کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اسی طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کر کے کیا آپؐ کے لئے مشکل تھا کہ دس صحابہؓ کا جتھہ بنا کر ابو جہل اور دیگر چیدہ چیدہ قریش سرداروں کو مروا دیتے آپؐ کو خاندان اور صحابہ سمیت تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا،غزہ کے فلسطینیوں سے بھی زیادہ نامساعد حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جذباتی نعرے لگا کر فلسطینیوں کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی بجائے سب کو مل کر ان کی بقا کی حکمت عملی پر عمل کو اختیار کرنا چاہیے۔