فرشی خداؤں نے کمال یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیدی کو ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں تین مختلف مقدمات میں سزائیں سنا کر نہ صرف عدالتی تاریخ کا نیا ریکارڈ بنا ڈالا بلکہ قیدی کے ووٹروں کا حوصلہ توڑنے اور اپنے تئیں آٹھ فروری والے دن انہیں اس کے آزاد امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے سے باز رکھنے کے قبل از انتخابات مطلوب تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ رہی سہی کسر انتخابات والے دن پوری کر لی جائے گی۔ تاہم اس کا اندازہ تو اس دن شام کو ہی ہوگا کہ فرشی خدائی نظام کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔ مرضی کا نتیجہ نہ بھی ہوا تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ اس کے بعد بھی بہت سے مواقع میسر ہوں گے۔ ڈیزاسسٹر مینٹینینس گینگ (سابقہ ڈی ایم جی جنہوں نے بھارت کی نقالی میں اپنا نام پی اے ایس یعنی پاس رکھ لیا ہے) اور ان کے چھوٹو گینگ یعنی صوبائی انتظامی سروسز سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کس درد کی دوا ہیں جو اپنی قابلیت تو بار بار ثابت کر چکے ہیں، وہ اپنی پٹاری میں سے کسی بھی وقت کچھ بھی برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔معاملہ اگر ان کے قابو سے باہر ہو گیا تو یار لوگوں کی ایک فون کال، جہانگیر ترین کا آزادوں کو سمیٹنے میں تجربہ کار طیارہ، نواز شریف کا 1988 والا چھانگا مانگا اور 1993 والا مری والا تجربہ اور سائبیریا کے مہاجر پرندوں کی طرح اچھے موسم کے متلاشی آزاد پنچھیوں کے اندر کا لالچ اور خوف کس دن کام آئیں گے؟ لہٰذا راقم کے نزدیک یہ زیر بحث لانا بے معنی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کون جیتے گا، کون وزیر اعظم بنے گا۔ بلکہ یہ بھی بے معنی ہے کہ قیدیوں کی سزاؤں کا کیا بنے گا کیونکہ جیسے یہ لازم تھا کہ قیدیوں کو انتخابات سے قبل سزائیں سنا کر ان کے پیروکاروں کے حوصلے کو توڑنے کی کوشش کی جائے اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ انتخابات کے کچھ مہینے بعد توشہ خانہ، سائفر اور عدت کے مقدمات میں ہونے والی سزائیں اعلٰی عدالتوں سے تکنیکی بنیاد پر ہی ختم کر دی جائیں گی۔ ھاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے قیدیوں سے کچھ ضروری معاملات طے کر لئے جائیں۔ اس انتخابی وقوعہ سے جو دیکھنے والی چیزیں ہیں ان میں پہلے نمبر پر تو یہ ہے کہ بیک وقت عزت اور اختیار کے متلاشی نواز شریف کو اس کے نتیجے میں یہ دونوں چیزیں ملتی ہیں یا ان میں سے کوئی ایک ملتی ہے۔ پہلے تو زندگی میں ہمیشہ انہوں نے اختیار کا انتخاب کیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ بظاہر تو یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ اب بھی اختیار ہی کا انتخاب کریں گے بلکہ کر چکے ہیں۔ گو ان کی جمہوریت کے شیدائی یہ ماننے کو تیار نہیں لیکن بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کے ووٹ کی عزت والے مطالبے کا مطلب ہی یہ تھا کہ مجھے اختیار سے کیوں محروم کیا کیونکہ ساتھ ہی وہ یہ بھی تو کہا کرتے تھے مجھے کیوں نکالا۔ اگر ان کے بیانیے کے دونوں پہلوؤں کو جوڑ کر پڑھا جائے تو ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ عزت تو ویسے بھی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ انسان کے اپنے اندر کا ایک احساس ہے۔ یہ مڈل کلاس ٹائپ لوگوں کا مسئلہ ہے جو اس تشویش میں مبتلا رہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کچھ ہوتا بھی تو نہیں۔ جن کے پاس دولت، طاقت ، اختیار ، شہرت سب کچھ ہوتا ہے انہیں کیا ضرورت ہے عزت کے چکروں میں پڑنے کی۔ اگر یہ سب کچھ ہے تو یہی تو ان کے نزدیک عزت کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔ دوسری بات یہ دیکھنا ہے کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں یار لوگ دوبارہ دو جماعتی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، جس کے لئے یار لوگوں سے لے کر، الیکشن کمیشن، عدلیہ، نگران انتظامیہ، شہباز شریف والی مقننہ اور شریف صحافیوں سمیت تمام نظام نے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے۔ پہلے جب 1988 میں آئی جے آئی بنائی گئی تو تب بھی کئی سال محنت کر کے جماعت اسلامی سمیت ایک خاص مذہبی ووٹ بنک کے علاوہ بہت سا دائیں اور بائیں بازو اور قوم پرستوں کا پی پی پی مخالف ووٹ بنک نواز شریف کی جھولی میں ڈالا گیا تاکہ ملک میں دو جماعتی نظام قائم کیا جائے۔ پھر زنبیل میں سے تین جماعتی نظام کا نسخہ نکالا گیا جسے کامیاب کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا۔اب اس کو بھی ناکام جانتے ہوئے دوبارہ تمام توانائیاں دو جماعتی نظام قائم کرنے پر لگائی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی زرشر والے تمام دانشور بھی قوم کو اسی کی برکات سمیٹنے کی تلقین کر رھے ہیں۔اب دیکھئے یہ کوششیں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ نواز لیگ محض سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر ابھرتی ہے یا منتظمین اسے سادہ اکثریت بھی عنایت کر دیتے ہیں یا پھر 1990، 1997 اور 2013 کی طرح انہیں دو تہائی اکثریت سے مستفید کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے لینے اور دینے والوں کے درمیان اعصابی جنگ جاری ہے۔ ابھی تک تو یہی سن رہے ہیں دینے والے تو سادہ اکثریت دینے کو بھی تیار نہیں لیکن نواز شریف بھی مرضی کی ڈیل میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ 1997 میں جہانگیر کرامت اور فاروق لغاری دو سال تک نگران حکومت چلانا چاہتے تھے لیکن بے نظیر کی حکومت تڑوانے کے بعد نواز شریف نے اس طرح لغاری اور جہانگیر کرامت کو آڑے ہاتھوں لیا کہ نہ صرف انہیں انتخابات کروانے پڑے بلکہ انہیں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت بھی دینا پڑی جس کے نتیجے میں وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ انہوں نے لغاری اور جہانگیر کرامت دونوں کو چلتا کیا۔ 2013 میں انتخابات کے دن کی شام تک بھی نواز شریف محض سادہ اکثریت حاصل کر رہے تھے لیکن جب پولنگ بند ہو گئی اور نتائج ترتیب دینا شروع ہوئے تو انہوں نے منتظمین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔ مبینہ طور پر اس دفعہ تو ابھی تک ن لیگ کو صرف سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواران کا زیادہ سے زیادہ تعداد میں جیتنا یار لوگوں کے لئے نعمت ثابت ہو گا۔ان کی حسب ضرورت تعداد کو استحکام پارٹی میں رکھ کر نئے قائم ہونے والے نظام کو مستحکم کیا جائے گا تاکہ کل کو کوئی نیا عمران خاں نہ برآمد ہو جائے۔ تاہم میرے ساتھ آپ بھی آٹھ فروری کی شام کا انتظار کریں یہ دیکھنے کے لئے کہ پارلیمانی طاقت کا اونٹ کس کروٹ بٹھایا جاتا ہے؟