حالیہ عام انتخابات کے بعد ملک کے سامنے متعدد چیلنجز سے نمٹنے کا مرحلہ درپیش ہے۔اگلے ماہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آرہا ہے۔مالیاتی استحکام کے ماہرین کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل کے باعث آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر ہوئی تو پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف الیکشن نتائج کے بعد سیاست میں تبدیلی کی ہوا جاری ہے۔نئی جمہوری اقدار کی تشکیل میں عوامی دباو ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے ۔یہی عوامی دباو جہانگیر ترین ، پرویز خٹک جیسے ساستدانوں کو سیاست سے لاتعلقی کی طرف لے گیا۔مایوس کن کارکردگی کے باعث امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کی ساری توجہ حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ پر ہے۔پاکستان کو جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ان کے حل کی خواہش اور پالیسی پر کوئی ٹھوس مشاورت نہیں ہو رہی،اس فراموشی سے اس بات کا امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ جس سیاسی استحکام کی آرزو عوام کے دل میں مچل رہی ہے وہ سیاست دانوں کے جوڑ توڑ سے مزید مجروح ہو سکتا ہے۔ سیاسی اخلاقیات کی ایک طرف مسخ صورت سامنے آئی ہے تو دوسری طرف کمزور سہی لیکن شعوری سطح بلند ہونے کی کچھ مثبت شکلیں ابھری ہیں۔جنوبی سندھ میں سات علاقائی جماعتوں کے اتحاد نے جماعت اسلامی (جے آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے حق میں اپنی نشست چھوڑنے کے بعد 8 فروری کے انتخابات میں مبینہ انتخابی ہیرا پھیری کے خلاف بطور احتجاج صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں چھوڑنے کا اعلان کیا۔حالیہعام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو سندھ اسمبلی میں ریکارڈ 84 نشستیں حاصل ہوئی ہیں، اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) نے 28 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 14 نشستیں حاصل کیں، جب کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور جماعت اسلامینے دو دو نشستیں حاصل کیں۔پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ ٹیبلیشن کے عمل کے دوران ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) کے دفاتر میں انتخابی نتائج میں ردوبدل کیا گیا،اس دوران ان کے امیدواروں یا پولنگ ایجنٹوں کو اس عمل کا مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے بعد اگلی حکومت کی شکل کا تعین کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہیں،اس دوران مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی نئی انتظامیہ کو سخت محنت کی ضرورت ہوگی کیونکہ بہت سے معاشی چیلنجز پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں کوئی پارٹی واضح کامیابی حاصل نہیں کر سکی، آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ ہے، ان امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 100 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے 75 نشستیں حاصل کیں، جب کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادتمیں پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 نشستیں حاصل کیں۔ سردست بڑے سیاسی دھڑے اتحاد بنانے کے لییجدوجہد کر رہے ہیں۔سبھی 169 سیٹوں کی سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پچیس کروڑ آبادی والا ملک کم جی ڈی پی اور بلند افراط زر کی وجہ سے معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے ۔یہ ملک کے ایک بڑے حصے کے لیے مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ عسکریت پسندی کے دیگر عوامل میں کرنسی کا کمزور ہونا، ٹیکس کی کم وصولی اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ان شعبوں میں بہتری نئے الیکشن سے مشروط سمجھی جا رہی تھی، حالات تبدیل نہ ہوئے تو سینتالیس ارب روپے سے ہونے والے انتخابات اپنا جواز کھو سکتے ہیں۔اس الیکشن کا مقصد نہ صرف دو سال سے جاری سیاسی عدم استحکام سے نمٹنا ہے بلکہ نئی، ثابت قدم حکومت کے قیام پر ہے جو لوگوں کے لیے بحران میں گھری معیشت کو مستحکم کر سکے۔تقریباً 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، مہنگائی 30 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے اور اس ہفتے جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق تقریباً 70 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں۔گزشتہ جون میں، پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا، غیر ملکی ذخائر 4.4 بلین ڈالر تک گر گئے تھے جبکہ کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں 50 فیصد سے زیادہ کم ہو گئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف حکومت کی مدت ختم ہونے سے چند ہفتے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک اہم بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اگست 2023 میں اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت نے IMF پروگرام کے تسلسل کو یقینی بنانے کے بنیادی چیلنج کا سامنا کیا۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام مارچ میں اختتام پذیر ہو رہا ہے، جیتنے والی پارٹی کا پہلا حکم یہ ہونا چاہیے کہ ملک میںاستحکام برقرار رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی اداریکے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے جائیں۔ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے بحران کا سامنا ہے۔آنے والی حکومت کو اخراجات کو کم کرنے اور بجٹ خسارے کو متوازن کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا حل نئی حکومت کو کرنا ہے۔مالیاتی ماہرین توانائی کے ٹیرف، مہنگائی، شرح سود، روپے کے استحکام اور عالمی بینک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور امریکہ سمیت دیگر ڈونر ممالک کے ساتھ مذاکرات کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے جو حکومت میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بنچوں کا انتخاب کرنے والوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔