یار لوگوں کے ساتھ چوتھی دفعہ نکاح کے لئے تیار نواز لیگ کے اندر اس وقت اطمینان کے سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری جماعت نیچے سے اوپر تک یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ اس پوزیشن میں آ چکی ہے کہ اگلے قومی اسمبلی کے انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کر لیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جماعتیں جو لٹکی ہوئی مقننہ کا سبب بنتی ہیں، یعنی سندھ کی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے‘ بلوچستان کی مقتدرہ موافق بلوچستان عوامی پارٹی جیسی سیاسی قوتیں اور پنجاب کی ملت پارٹی‘ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ یا استحکام پاکستان پارٹی وغیرہ جو عمومی طور پر جنوبی پنجاب کے منتخب ہونے کی قابلیت رکھنے والے جاگیردار و گدی نشین سیاستدانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کو نواز شریف بڑی خوبصورتی کے ساتھ دیوار کے ساتھ لگا جا چکے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کی اس امید پر پانی پھیر چکے ہیں کہ مسلم لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے وہ اپنے اپنے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ نواز شریف کی حکومت بنوائیں گے اور پھر پتلیوں کی طرح ناچ کر یار لوگوں کے مفادات کو بھی تحفظ فراہم کریں گے اور اپنے آئندہ آنے والوں نسلوں کی قسمت بھی سنوارتے رہیں گے۔ ایسے لوگوں سے معاملہ کرنے کا نواز شریف سے زیادہ کسی کو تجربہ نہیں ہے۔ آنے والے انتخابات میں ٹکٹوں کا لالچ دے کر قاف لیگ کے اندر سے 2008ء والی اسمبلی میں حامد ناصر چٹھہ کی اشیر باد سے عطا مانیکا اور ڈاکٹر طاہر جاوید کی قیادت میں فارورڈ بلاک بنوا کر 2013ء کے انتخابات کے موقع پر ایسے لوگوں کو نواز شریف نے ٹیشو پیپر کی طرح پھینک دیا تھا۔ اب بھی تحریک انصاف کا کچرا استحکام پاکستان پارٹی اور کئی دیگر پلیٹ فارم کی شکل میں منظم ہو گیا کہ نواز شریف سے معاملہ کر کے اپنے لئے نشستیں مخصوص کروائیں گے اور اسمبلی میں بیٹھ کر یار لوگوں کی شرائط پر حکومت سے اختلاط کریں گے۔ لیکن نواز شریف نفسیاتی طور پر جیت چکے ہیں اور ان سب کو یہ باور کرا چکے ہیں کہ ان کو نون لیگ کے ہی ٹکٹ پر انتخاب لڑنا پڑے گا۔اس کے لئے انہیں مسلم لیگ میں شامل ہونا پڑے گا۔ اس کی ہی وجہ سے استحکام پارٹی میں تحریک انصاف کے مزید کچرے یعنی قابل انتخاب لوگوں کی شمولیت کا سلسلہ رک گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ باپ کے پانچ بچوں نے بھی نون لیگ ہی میں شمولیت میں عافیت جانی ہے ۔واحد کراچی ہے یا اربن سندھ جہاں نون لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہی ہے۔نون لیگ کو امید ہے کہ اگر ان کی حمایت سے ایم کیو ایم کچھ نشستیں جیتے گی تو اس کی حمایت سے یہ بھی کچھ نشستیں جیت کر سندھ میں اپنی موجودگی کا نشان ثبت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کا جو کچھ بھی ہے وہ پہلے ہی نواز شریف ہی کا ہے۔ اس ساری صورت حال میں نون لیگ اس وقت مکمل مطمئن ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہر صورت میں حکومت تو انہی ہی کی بنے گی۔ اب اگلے مرحلے کے طور پر نواز شریف نے اس چیز پر کام شروع کر دیا ہے کہ دو تہائی اکثریت کیسے حاصل کی جا سکتی ہے تاکہ وہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کی چیخ چیخ سے آزاد رہ کر حکومت کر سکیں۔ یہ اس وقت ایک مشکل مرحلہ لگ رہا ہے لیکن ملک میں جس طرح کی سیاسی و انتظامی صورتحال ہے اس میں یہ کوئی ناممکن بھی نہیں ہے۔ سوائے ایک عمران خاں کی مقبولیت کے کوئی اور ایسا عنصر نہیں ہے، جو نواز شریف کے راستے میں کسی بھی طرح کی کوئی معمولی سی بھی رکاوٹ یا اندیشے کا باعث بن سکے بلکہ ملک کی تمام قوتیں‘تمام بڑے‘ تمام ادارے ‘ تمام عوامل کمربستہ ہو کر اس کام پر لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہر قیمت پر نواز شریف کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ اس کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کرنی ہیں۔ نگران حکومتوں کے تمام مہروں سے لے کر تمام افسر شاہی اور تمام کارپردازان انصاف ہر کوئی دامے‘ درمے‘ سخنے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس نیک کام میں حصہ ڈالنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہے۔ باہر کی تمام قوتیں بھی یہ کہا جا رہا ہے یہی منشا رکھتی ہیں کہ نواز شریف کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ واپس کرسی اقتدار پر براجمان کیا جائے۔ جب سب کچھ اس قدر موافق ہو تو پھر کیوں نہ دل کھیلن کو چاند مانگے۔ اگر احسان ہی لینا ہے تو کیوں نہ پھر مرضی کا نتیجہ لیا جائے۔ نواز شریف کو یہ بھی پتہ ہے کہ یار لوگوں اور عمران خاں کی لڑائی اس قدر شدت سے آگے بڑھ چکی ہے کہ یار لوگوں کے پاس اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کی شرائط پر اس سے معاملہ کریں۔1997ء میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی اور 2013ء میں بھی تب نواز شریف نے مرضی کا مینڈیٹ لے لیا تھا تو اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ 2013ء میں جنرل کیانی انتخاب کے دن کی شام تک بھی تیار نہیں تھے لیکن اپنے گھر کی بالکنی سے لی گئی نواز شریف کی وکٹری سپیچ یعنی فاتحانہ خطاب میں کئے گئے۔ مطالبے نے جنرل کیانی کو مجبور کر دیا کہ نواز شریف کی مرضی کے نتائج جاری کئے جائیں۔ راقم کئی ایسے حلقوں کو جانتا ہے کہ جہاں یار لوگوں سے ہموار راستہ ملنے کے بعد نواز شریف اور خلیل الرحمن رمدے نے ریٹرننگ افسروں کو براہ راست فون کر کے مرضی کے نتائج لئے۔ اگر تب یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو اب کیوں نہیں۔ ٭٭٭٭٭