ایک ٹویٹ کی آج کل بہت زیاد ہ شہرت ہے ۔ یہ ٹویٹ سلمان شہباز کی طرف سے کیا گیا ہے جو موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحب زادے ہیں اور گزشتہ دنوں ہی لند ن سے واپس آئے ہیں اور آتے ہی خار زار سیاست میں قدم رکھ دیئے چونکہ وہ سیاست کو بھی اپنے خاندانی کاروبار کی طرح اپنا موروثی استحقاق سمجھتے ہیں ل۔لہذا انہیں یہ کہنے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے کہ وہ گزشتہ تین سابق وزرائے خزانہ کو جوکر قرار دیدیں ان تین میں سے ایک تو جناب مفتاح اسمعیل صاحب ہیں جوان کے والد محترم کے انتخاب سے ہی کابینہ کی اس اہم وزارت پر فائز ہوئے تھے ۔اور اس حیثیت سے انہوں نے جو بھی فیصلے کئے اس میں یقینی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کی رضامندی بھی شامل رہی ہوگی تو کیا سلمان شہباز بالواسطہ طور پر اپنے والد محترم کی اہلیت پر بھی طنز فرما رہے تھے۔پھر یہ کہ مفتاح اسمعیل سے قبل جو دو وزرائے خزانہ رہے ہیں ان سے سیاسی اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر شخصی احترام کا لحاظ نہ رکھا جائے یہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔سلمان شہباز کے اس ٹویٹ پر ان کی جماعت کے بھی کچھ سینئر قائدین نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وزیر اعظم صاحب نے ابھی تک اس ٹویٹ پرکسی تاسف کا اظہار نہیں کیا ہے جو اب تک ہو جانا چاہیئے تھا کیونکہ اس ٹویٹ میں ان کی کابینہ کے ایک رکن کی اہلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اپنی کابینہ کے سابق رکن کا دفاع کرنا ان کی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بعینہ سلمان شہباز کو بھی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس پر معذرت کرنا چاہیئے۔پھر سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ مسلم لیگ میں سلمان شہباز کی سیاسی حیثیت کیا ہے، وہ کب سے اس کے فعال رکن ہیں کتنی بار منتخب ہوئے ہیں کیا پارلیمانی تجربہ ہے اور کس بنیا دپر وہ وزرائے خزانہ کو جوکر قرار دے رہے ہیں؟ یہ درست ہے کہ ملک کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہے سیاسی اور انتظامی بحران کی کیفیت میں سخت فیصلے کئے جانے ناگزیر تھے جو مفتاح اسمعیل صاحب نے کئے۔ ان کے پیش کئے جانے کے طریقہ کار سے تو اختلاف ممکن ہے مگر یہ سخت اقدامات جو وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے کئے پاکستان کی معاشی حالت کا جبر تھے ۔عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض کا حصول ان کی شرائط پر ہی ممکن تھا اور ظاہر ہے کہ ان شرائط کے سیاسی اثرات تو ہونے تھے جو وہ ہوکر رہے۔ مشکل معاشی حالات سے آگہی کے باوجود وفاق میں حکومت کے حاصل کرنے میں مسلم لیگ کو ہی عجلت تھی لہذا ان فیصلوں کا بوجھ بھی اس کے ذمہ ہے۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں سلمان شہباز کا رویہ نہ صرف غیر سیاسی ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے اس پر ان کی قیادت کی جانب سے بازپرس ہونی چاہیئے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا سیاسی المیہ ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعت کو اپنا ایک کاروباری ادارہ سمجھتے ہیں اور خاندان سے باہر جماعت کے سیاسی قائدین ان کے نزدیک ان کے کاروباری ادارے کے ملازمین کی طرح ہیں۔اور اب یہ سوچ دونوں (بڑے اور چھوٹے ) میاں صاحبان سے ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوچکی ہے۔ شریف خاندان کا مزاج سیاسی نہیںہے اور جمہوری تو ہر گز نہیں ۔خوش قسمتی ، سرپرستی اور حالات نے انہیں سیاست میں کامیاب ضرور کردیا مگر ان کا کاروباری مزاج تبدیل نہیں ہوسکا۔سود و زیاں کی باریکیوں کو تو وہ خوب سمجھتے ہیں مگرپارلیمانی جمہوریت کی اخلاقیات اور اقدار سے انہیں کچھ علاقہ نہیں۔ شریف خاندان کی گزشتہ چالیس سال کی سیاست اسی طرز عمل پر استوار ہے۔ نواز شریف پھر شہباز شریف اس کے بعد مریم نواز پھر حمزہ شہباز اور اب سلمان شہباز کی سیاست میں قائدانہ آمد ۔ مسلم لیگ کی سیاست میںبقا کے لئے یہ ضروری ہو چکا ہے۔ا ب اگر وقت کے اس تقاضے کو سمجھنے میں تاخیر کی تو پھر جو کچھ سیاسی ساکھ باقی رہ گئی ہے وہ بھی بند مٹھی میں پھسلتی ریت کی طرح نکلنے کو ہے۔ پنجاب جو کبھی شریف خاندان کی سیاست کا گڑھ رہا ہے وہاں اب صورت حال بدل رہی ہے نواز شریف کی غیر موجودگی اور خاندان میں موجود قیادت کی کشمکش نے مسلم لیگ کی سیاسی گرفت کو صوبے میں کمزور کردیا ہے اس ایک صوبہ کی بنیاد پر ہی انہیں وفاق اور صوبہ میں اقتدار ملتا رہا ہے اور اب یہ ان کی اپنی ہی غلط حکمت عملی اور غیر جمہوری سوچ کے باعث ہاتھ سے نکلے جارہا ہے ۔ پنجاب کی سیاست میں جو تبدیلیاں اس وقت ہو رہی ہیں ایسے میں حمزہ شہباز جو صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں منظر سے غائب ہیں انہیں یہاں اپنی اسمبلی میں اپنے اراکین کے ساتھ موجود ہونا چاہیئے تھا مگر وہ نہ جانے کس اہم کام یا مجبوری کی وجہ سے لندن میں مقیم ہیں ۔اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے۔ نگران حکومت کے قیام کا اہم معاملہ طے ہونا ہے اور مسلم لیگ کا صوبائی پارلیمانی قائد ملک میں ہی موجود نہیں۔ یہ ہی وہ رویے ہیں جو ان کے سیاسی زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ کس طرح اپنی غیر موجودگی میں اراکین اسمبلی سے سیاسی یکجہتی رکھ سکتے ہیں کس طرح وہ ان سے سیاسی وفاداری کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہونگے۔سیاسی جماعتوں کا استحکام جمہوری اور سیاسی رویوں سے ہی ممکن ہوتا ہے سیاسی جماعت عوامی ادارہ ہے تجارتی کمپنی نہیں اس میں سیاسی کارکن اور دوسرے ،تیسرے درجے پر متحرک قیادت کی بھی اہمیت ہوتی ہے انہیں ایک عوامی ادارے کے طور پر ہی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بات شریف خاندان نہیں سمجھتا ۔ ایک قومی سیاسی جماعت کے قائد کے طور پر نواز شریف نے پاکستان کے دیگر صوبوں کو سیاسی توجہ اوراہمیت دینے سے دانستہ یا نا دانستہ لا پرواہی روا رکھی جس کا خمیازہ ان کی سیاسی جماعت کو اب اٹھانا ہو گا ۔ نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے خیبر پختون خوا ،سندھ اور بلوچستان سے سیاسی طور پر جو بے اعتناعی برتی اس سے ان صوبوں میں ان کی جماعت عوامی حمایت سے محروم ہوتی گئی۔پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرمیں مسلم لیگ نواز کی سیاسی اہمیت بتدریج کم ہوتی جارہی ہے اسے مذید کم کرنے کے لئے اب سیاست میں سلمان شہباز کے رویے ہی کافی ہونگے۔