ملک کو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں۔ سب سے بڑا تو معیشت کا مسئلہ ہے۔ اب گذشتہ دن پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں یک دم 20 روپے کا اضافہ ہونے سے ظاہر ہے مہنگائی کا ایک اورطوفان بپھرا پڑا ہے۔ ہم پاکستانی ہر مہینے کسی نہ کسی خوف میں مْبتلا رہتے ہیں۔ اب یہ تازہ ترین خوف پیٹرول کی قیمت بڑھنے کا ہے۔ صورتِ حال مزید خوف ناک اس لیے ہو گئی ہے کہ اب اس کے ساتھ ہی آٹے، سبزی اور دال کا بھاؤ بھی بڑھ جائے گا۔ پنساری، چکی والا اور سبزی فروش سب کہیں گے پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ ماں باپ ہراساں ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت شگفتہ کے گھرانے پر طاری ہے۔ اس کا خاوند الیاس رکشہ چلاتا ہے۔ وہ شام کو گھر آیا تو اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ شگفتہ روز کی طرح اس کے لیے پانی کا ٹھنڈا گلاس بھر لائی۔ کیا پریشانی ہے؟ شگفتہ نے پوچھا۔ ’’کیا بتاؤں ! آج بمشکل 500 روپے بچے ہیں پورے دن رکشہ چلانے کے بعد۔ کیا کروں پیٹرول ہی کے پیسے پورے نہیں ہو رہے۔ بچوں کا کھانا، سکول کی فیسیں سب کیسے ہو گا۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ان کا بڑا بیٹا جو کالج میں پڑھتا ہے وہ آ گیا۔ کہنے لگا: ابّا! آج تو میں پچھلے ڈیڑھ میل سے موٹر سائیکل گھیسٹا ہوا لے کر آیا ہوں کیونکہ پیٹرول ختم ہو گیا تھا اور جیب میں پْھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ اب سب پریشان بیٹھے تھے۔ الیاس کی چار چھوٹی بیٹیاں بھی تھیں۔ نجانے کون سی بوتل والا جن آئے گا اب ہماری بڑھتی ہوئی مشکلوں کو حل کرنے۔ اس طرح کے اَن گنت گھرانے ہیں۔ اس 25 کروڑ کی آبادی میں۔ ابھی تک تو ہم اپنی مردم شماری بھی ٹھیک طور پر نہیں کر سکے۔ کیا کوئی ادارہ اپنا کام ذمہ داری سے نہیں کرتا۔ پیٹرول کے معاملے میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار صاحب فرمارہے ہیں کہ پوری قوم جانتی ہے کہ IMF کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے وہ نہ ہوتا تو ہم پیٹرولیم لیوی کی مد میں کمی کر کے عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافے کا بوجھ اٹھا لیتے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ یہ فیصلہ ملکی مفاد میں کیا ہے۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ عوامی مفاد کبھی ان کے ذہن میں نہیں آئے۔ اب کیا وہ عوام کے سامنے اس راز سے پردہ ہٹائیں گے کہ ملکی مفاد ہے کیا؟ مزید یہ کہ اس کی مَد میں اور کیا کیا خطرناک فیصلے کیے گئے ہیں۔ ایک اور مزے دار بات یہ ہے کہ جوتوں کے جوڑوں کی طرح نہ تو 19روپے اور نہ ہی پورے 20 روپے بڑھائے گئے بلکہ 19.95۔ جناب سوال یہ ہے کہ ان پانچ پانچ پیسوں کو جوڑ کر کیا بڑے میاں صاحب کی واپسی کا ٹکٹ خریدنا ہے۔ ایک اور بات تمام اشیا پر پہلے ہی سے ٹیکس لگا ہوا ہے۔ دال، چاول، چینی، آٹا، نہانے کا صابن، شیمپو، دانت منجن، سگریٹ، مشروبات سب پر ٹیکس ہے۔ اب تو عوام کی مانگ ہے کہ حکومتی اتحادی ٹولے کی طرف سے جو جَبر اور خوف کی فضا قائم کی گئی ہے اس پر ڈائریکٹ ٹیکس لگایا جائے جو پارلیمان کے ممبر ادا کریں اور وہ ٹیکس ڈائریکٹ حکومتی خزانے میں جائے تا کہ IMF کا قرض چکانے میں مدد مل سکے۔ کیا کوئی غم گسار ہے ہمارا؟ ہم خود کو کہتے تو ایٹمی طاقت ہیں تو کیا ایٹمی طاقت صرف ذہانت سے بنا؟ کیااپنے اس ایٹمی اثاثے اور ملکی دفاع کو بچانے کے لیے دولت کی ضرورت نہیں ہوتی؟ آج کوئی عقل مند شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کثیر رقم ادا کیے بغیر کوئی حکومتی ایوانوں میں پہنچ سکتا ہے۔ حکمران عوام کو نوث رہے ہیں۔زرعی زمینوں کاصفایا کر کے وہاں رہائشی سکیمیں بن رہی ہیں۔ دوسرے ممالک سے ہم قرضے پر گندم، چاول، کھانے کا تیل اور دالیں منگواتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں۔ ملک کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ کبھی کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ جس میں جیتے رہنے کی صلاحیت ہو گی وہ جیتا رہے گا مگر اب تو دو وقت کا کھانا حقیقتاً مشکل ہو چْکا ہے۔ کسی فیکٹری کا ایک اوسط کاریگر جس کی تنخواہ ماہانہ 35 ہزار روپے ہے۔ فیکٹری جانے کے لیے موٹر سائیکل کا خرچہ تقریباً 8ہزار روپے ہے تو کوئی بتائے کہ وہ دیگر اخراجات کیسے پورے کر گا۔ ہر طبقہ ملک گیر احتجاج کرنے پر تْلا ہوا ہے۔ بے پناہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید پہلے ہی جواب دے چکی ہے۔ رْوس سے آنے والا سستے تیل کا جہاز کیا ہْوا؟ وہ شاید کسی بے وفا محبوب کی طرح ٹوٹ گیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستیں جو ہمارے ہمدرد بھی ہیں ان سے تیل کیوں نہیں ملتا۔ مشکل ہے؟ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک جَبر اور خوف کی فضا پر ٹیکس نہ لگے اور عوام کو غلام سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ یہ ملک اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک یہاں میڈ ان پاکستان کا رحجان نہیں ہو گا۔ ہمارے مقامی صارف کو پاکستانی اشیا کی خریداری کا آغاز کرنا ہو گا۔ دیکھیں ناں ہمارے بہت سے کاروباری حضرات کے سامان کی کھیپ کنٹینروں میں بھر کر آتی ہے تو کرایہ وغیرہ ڈال کر اشیا مہنگی ہی ہوں گی۔ لوگ اپنے بھائیوں کو لْوٹ رہے ہیں۔ رات کو نوکری سے کوئی گھر لوٹ رہا ہو تو لٹیرے پستول کی نوک پر چند سو روپے اور موبائل چھین لیتے ہیں۔ بجلی کے نرخ بھی بڑھ چکے ہیں۔ آخر یہ سب عام آدمی ہی بار بار کیوں برداشت کرے؟ سوال پھر سے اْٹھتا ہے کہ روس سے سستے تیل کی رَسد کیا ہوئی؟ عوام کے اوپر سے جَبر اور خوف کو ہٹا کر ان کی صلاحیتیوں سے مثبت کام لیے جائیں۔ ملکی صنعتوں کو ترقی دی جائے۔ اگر خوف اور جَبر کو نہیں ہٹانا تو پھر اربابِ اختیار اس کا ٹیکس ادا کریں بالکل ویسے جیسے غریب آدمی ہر چیز کا ٹیکس دیتا ہے۔ ٭٭٭٭