انگریزوں کا 1860ء میں بنایا ہوا قانون 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے حدود آرڈی نینسز میں زنا بالجبر کے متعلق دفعات کے ذریعے ختم کیا۔ 2006ء میں جنرل مشرف نے تحفظِ نسواں ایکٹ کے ذریعے زنا بالجبر کے متعلق ساری دفعات ختم کردیں اور مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں ریپ کے متعلق دفعات 375، 376 دوبارہ شامل کرلیں۔ البتہ اس نئے جنم میں وہ استثنا ختم کردی گئی جو پہلے شوہر کو حاصل تھی، یعنی اب شوہر کے خلاف بیوی ریپ کا دعویٰ کرسکتی ہے اور بتائے بغیر marital rape یا "ازدواجی زنا بالجبر" کا جرم تخلیق کرلیا گیا ہے۔ یہ جرم بھی ہمارے اصولوں کی رو سے غلط مفروضوں پر قائم ہے۔ خیر اس پر بحث کسی اور وقت سہی۔ 2016ء میں مجموعہ تعزیرات میں اضافہ کی گئی شقوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ ریپ کی شکار مظلوم خاتون کی شناخت ظاہر کرنے کو (چند استثنائی صورتوں کے سوا) جرم قرار دیا گیا۔ اس مرحلے پر بھی ریپ کا اطلاق صرف خواتین کے ساتھ زیادتی پر ہی ہوتا تھا اور وہ بھی مخصوص نوعیت کی زیادتی جس میں intercourse sexualکو لازمی عنصر کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ "جنسی استحصال" کے نام سے ایک نئے جرم کا اضافہ کرکے اس میں کئی افعال کو شامل کیاگیا۔ یہاں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانونِ شہادت کی ایک پرانی شق پر بھی بحث ضروری ہے جسے جنرل ضیاء کے دور میں "اسلامائزیشن" کے بعد نئے قانونِ شہادت کی دفعہ 151 میں بھی باقی رکھا گیا۔ اس دفعہ میں وہ امور ذکر کیے گئے ہیں جن کوگواہ کے ناقابلِ اعتماد ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ ریپ کی مستغیثہ "عمومی برے کردار" کی حامل تھی۔یہ شق انگریزی قانون کے اس اصول پر مبنی تھی کہ اگر اس عورت کے متعلق یہ گمان پیدا ہوجائے کہ وہ جنسی عمل کے لیے پھسل سکتی تھی، تو اس سے "جبر" کے متعلق "شک" پیدا ہوجاتا ہے اور شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ جبر کے ثبوت میں دراڑ سے الزام ہی ختم ہوجاتا ہے اور رضامندی کا فعل تو انگریزوں کے ہاں جرم ہی نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورت کے "عمومی برے کردار" سے ایسا "شک" پیدا ہوجاتا ہے جو "جبر" کے ثبوت میں دراڑ پیدا کرے؟ اس شق کو وفاقی شرعی عدالت نے قرآن و سنت سے متصام قرار دیا تھا (مختار احمد بنام حکومتِ پاکستان، 2009)۔ اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے ہوئی جس نے مجھے دسمبر 2014ء میں اس پر دلائل دینے کے لیے بلایا لیکن اٹارنی جنرل کے کسی اور بنچ کے سامنے پیش ہونے کی بنا پر اس مقدمے کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ اس کے بعد کبھی سماعت نہیں ہوئی، یا کم از کم مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہوسکا، یہاں تک کہ 2016ء میں اس شق کو ترمیم کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ یوں وہ اپیل ہی غیر مؤثر ہوگئی۔ 2021ء میں ریپ کے متعلق قانون میں مزید ترامیم کرکے ریپ کے جرم کی تعریف بہت وسیع کردی گئی اور sexual intercourse کے علاوہ بھی بہت سارے افعال کو ریپ کی تعریف میں داخل کیا گیا، نیز ریپ کے جرم کا ارتکاب اب صرف خواتین کے خلاف نہیں، بلکہ کسی بھی شخص کے خلاف کیا جاسکتا ہے۔ اب اس سوال پر آئیے کہ کیا ریپ کی شکار خاتون کی تنہا گواہی پر کسی کو سزا دی جاسکتی ہے؟ انگریزی قانون کے اصولوں کی رو سے مستغیثہ/شکایت کنندہ خاتون کو جرم کے پہلے گواہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، جبکہ اسلامی قانون کی رو سے مدعی اور گواہ کی حیثیت الگ الگ ہوتی ہے۔ بہرحال عدالت کے سامنے ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا اس خاتون کا مظلوم ہونا ثابت ہوچکا ہے؟ اس مقصد کے لیے واقعاتی شہادتیں بھی دیکھی جاتی ہیں اور میڈیکو لیگل رپورٹ اور دیگر امور کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔چنانچہ جب ایک دفعہ ثابت ہوجائے کہ وہ ریپ کی شکار ہوچکی ہے، تو اس کے بعد اس کی داد رسی لازم ہوجاتی ہے۔ تاہم مستغیثہ کا مظلوم ہونا ایک بات ہے اور ملزم ہی کا اس کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہونا دوسری بات ہے؛ دونوں میں کوئی تلازم نہیں ہے۔ چونکہ یہ خاتون صدمے کی کیفیت میں ہوتی ہے اور صدمے کے بعد کے ذہنی کھنچاؤ (PTSD) کی شکار بھی ہوسکتی ہے، نیز اسے hallucinationsبھی ہوسکتی ہیں، دیگر امکانات بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے اس کے بیان کی تائید (corroboration) کے لیے دیگر قرائن کا ہونا بہرحال ضروری ہے۔ حدیث میں فجر کے وقت مسجد کے قریب ایک عورت کے ساتھ زیادتی کا واقعہ روایت ہوا ہے جس پر اگرچہ بعض اہلِ علم نے تنقید بھی کی ہے، لیکن اس روایت سے اتنا ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ جس پر اس عورت نے الزام رکھا، جرم اس کے بجائے کسی اور نے کیا تھا۔ ڈی این اے رپورٹ کو ان دنوں بڑی اہمیت دی جاتی ہے اورریپ سے پیدا ہونے والے حمل کے ذمہ دار شخص کے تعین کے لیے وفاقی شرعی عدالت نے خصوصاً اسے قابلِ اعتماد قرار دیا ہے (محمد شاہد ساحل بنام ریاست، 2010ء ) لیکن یہ رپورٹ بذاتِ خود تو کچھ نہیں کہہ رہی ہوتی، بلکہ اس کے مفہوم کے تعین کے لیے ماہر کی رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ثبوت کا قابلِ اعتماد ہونا، اس کا عدالت میں قابلِ ادخال ہونا اور پھر مقدمے کے حقائق میں اس کا وزن متعین کرنا، الگ مسائل ہیں۔ چنانچہ شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کے نسب سے انکار کے مسئلے میں سپریم کورٹ نے ڈی این اے رپورٹ کو ناقابلِ ادخال قرار دیا ہے (غزالہ تحسین زہرا بنام غلام دستگیر خان، 2015ء )۔ جرائم کی تفتیش پر مبنی کہانیوں کے مشہور کردار شرلاک ہومز کئی جگہ بتاتے ہیں کہ قرائن سے استنباط ایک پیچیدہ امر ہے اور "نامکمل معلومات" یا "نامکمل حقائق" پر کبھی نظریہ تشکیل نہیں دینا چاہیے؛ نیز اس بات پر نظر رہنی چاہیے کہ قرائن سے بظاہر ایک نظریہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے، لیکن زاویہ نظر کی تبدیلی سے انہی قرائن سے اتنی ہی قطعیت کے ساتھ ایک اور نظریہ ثابت ہوتا ہے؛ اسی لیے ضروری ہوتا ہے کہ ثابت شدہ حقائق سے صرف ایک ہی نظریہ ثابت ہو اور باقی تمام احتمالات کی نفی ہو۔ قرائن اور واقعاتی ثبوتوں کے ذریعے سزا دینے کے لیے ان کڑی شرائط کا ذکر سندھ ہائی کورٹ نے محبت بنام ریاست (1990ء ) میں بہت خوبصورتی سے کیا ہے: (1) واقعات کے جن ٹکڑوں سے استنباط کیا جارہا ہے، ان میں ہر ٹکڑا اپنی جگہ ثابت ہو؛ (2) تمام حقائق مفروضہ نظریے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں؛ (3) ان حقائق سے یہ مفروضہ حتمی طور پر ثابت ہوتا ہو؛ اور (4) دیگر تمام احتمالات کی نفی ہوتی ہو۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کی گواہی پر سزا تبھی دی جاسکتی ہے جب قرائن اور واقعاتی ثبوتوں کی بنا پر عدالت اس بات پر مطمئن ہو کہ اس مقدمے کے مخصوص تناظر میں اس گواہی سے ملزم کا جرم ثابت ہوگیا ہے۔سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ نے عاطف ظریف بنام ریاست (2021ء ) میں یہی اصول طے کیا ہے۔