سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے پاکستانی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس گزشتہ سال 8 ستمبر کو آزادکشمیر میں محمد ریاض اور کشمیر کے قریب سیالکوٹ شہر میں شاہد لطیف کے قتل سے بھارتی ایجنٹوں کے تعلق کے "معتبر ثبوت" ملے ہیں۔سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ "یہ کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل کرانے کے واقعات تھے جن میں ایک پیچیدہ بین الاقوامی نیٹ ورک شامل تھا ۔قاتل متعدد دائروں میں پھیلے ہوئے تھے۔سیکرٹری خارجہ کے بقول دو بھارتی ایجنٹوں نے ان افراد کو قتل کرنے کے لیے قاتلوں کی خدمات حاصل کیں۔ دونوں مقتول مساجد کے آس پاس مارے گئے۔بھارت طویل عرصے سے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا رہا ہے، خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں حریت پسندوں کی کارروائیوں کو پاکستان کی منصوبہ بندی قرار دے کر بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی لائن یا لائن آف کنٹرول سے دونوں ممالک کے درمیان براہ راست تصادم کے امکانات کم ہوئے ہیں لیکن بھارت گاہے بگاہے ایل او سی پر کشیدگی پیدا کرتا رہتا ہے۔یہی کافی نہیں بلکہ بھارت پاکستان کو دنیا کے سامنے دہشت گرد ظاہر کرنے کی خاطر مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں اپنے ہی سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کروا چکا ہے۔ تنازع کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد نے پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں کا موازنہ شمالی امریکہ میں بھارتی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کی حالیہ سازشوں سے کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح شہریوں کو قتل کیا گیا وہ اسی طرح کے کے نمونے ہیں جو کینیڈا اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں سامنے آئے ہیں۔واضح طور پر ماورائے عدالت قتل کا بھارتی نیٹ ورک عالمی سطح پر متحرک ہو چکا ہے۔ اگرچہ بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی بھارت مخالف پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے کی پاکستان کی تازہ ترین کوشش" قرار دیا ہے لیکن الزامات کا ٹھوس جواب اسی طرح دینے سے گریز کیا جیسا کینیڈا میں خالصتان کے حامی سکھ رہنما کے قتل اور امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کے ضمن میں بھارت کا وطیرہ رہا۔ پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کا ہدف رہا ہے۔پاکستان کی عوام اور سکیورٹی فورسز ہزاروں جانیں قربان کر چکے ہیں۔عالمی امن کے حوالے سے پاکستان کا عزم ہے جس کے باعث اس نے پہلے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور پھر افغانستان میں پر امن انخلا کے منصوبے کو پایہ تکمیل پہنچایا۔پاکستان نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ضمانت پر کشمیر پر جنگ بندی قبول کی ورنہ پورا کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارتی ایجنٹوں نے کسی دوسرے پر امن ملک کے شہریوں کو قتل کیا۔گزشتہ برس نومبر میں امریکہ نے بھارتی حکومت کے ایک اہلکار پر ایک امریکی شہری کو اس کی سرزمین پر قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔یہ انکشاف کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے عوامی طور پر اس الزام کے ایک ماہ بعد سامنے آیا کہ بھارت ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔گزشتہ سال کینیڈا کی سرزمین پر خالصتان کے حامی ایک سکھ علیحدگی پسند کی ہلاکت کے بعد کینیڈا اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجار کی موت سے کھلے عام بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا تعلق جوڑا تھا۔ نجار بھارتی حکام کو مبینہ طور پر "دہشت گردی" اور قتل کی سازش کے الزام میں مطلوب تھے۔امریکی حکام نے بتایا تھا کہ 52 سالہ نکھل گپتا کے خلاف کرایہ کے لیے قتل کا مقدمہ نیو یارک شہر میں "ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کی ناکام سازش میں حصہ لینے کے سلسلے میں" درج کیا گیا ۔امریکی حکام کے مطابق اس شخص کو بھارتی حکومت کا ایک سرسری نقاد اور امریکہ میں قائم ایک تنظیم کی قیادت کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا جو بھارتی پنجاب کی علیحدگی کی حمایت کرتی ہے۔ بھارتی قیادت کینیڈا اور امریکہ کی طرح کبھی پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا جواز نہیں پیش کر سکی ۔پاکستان دو سال پہلے اس سلسلے میں ایک ڈوزئیر عالمی اداروں کو فراہم کر چکا ہے ۔دسمبر میں فنانشل ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ان کی حکومت امریکی شہری کے قتل کی سازش سے جڑے کسی بھی ثبوت کی تحقیقات کرے گی۔یہ تحقیقات کس سطح پر پہنچیں اس کا آج تک پتہ نہیں لگ سکا۔ پاکستان نے بھارتی ایجنٹوں کی جانب سے پاکستان میں شہریوں کے قتل پر سنجیدگی اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قانونی طریقہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان کے پاس اپنے الزامات کے ٹھوس ثبوت ہیں۔بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے قتل کی وارداتیں کرتا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی برادری اس رویئے کو کیا خاموشی کے ساتھ دیکھتی رہے گی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کی سرپرستی کے الزام میں عالمی سطح پر کارروائی کی جائے۔بھارت کی ایسی سرگرمیوں کو روکا نہ گیا تو بد امنیکا نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔