اپریل 2022ء کا مہینہ شاید کبھی نہ بھلایا جا سکے ، جب منتخب وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا، اُس کے بعد پاکستان میں سیاسی بے چینیوں اور بحرانوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہ تھم سکا۔ بحران 2022 میں اس وقت شروع ہوا جب اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد کیا اور عمران خان کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا کہا اور بدعنوانی کے الزامات والے اپنے تاریخی حریف سیاست دانوں کو اقتدار پر قبضہ نہ کرنے دیں۔پھر 9 اگست 2023 کو دی انٹرسیپٹ کے ساتھ شیئر کی جانے والی لیک کیبلز میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکی حکومت نے خفیہ طور پر عمران خان کی برطرفی کی حوصلہ افزائی کی کہ اگر خان کو نہ ہٹایا گیا تو پاکستان تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔ اس پر سائفر کا معاملہ ابھی تک چل رہا ہے اور عدالت سے بھی عنقریب کوئی فیصلہ متوقع ہے۔ اپنی معزولی کے بعد، عمران خان نے قبل از وقت عام انتخابات کے لیے اپنی تحریک کا آغاز کیا، جس کے لیے خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی دو صوبائی اسمبلیوں ( پنجاب اور کے پی ) کو تحلیل کرنے کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ۔ خان کی طرف سے احتجاج کی کال کو عام لوگوں کی طرف سے مثبت رد عمل ہوا، اور مختلف سروے کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو پاکستان کا سب سے مقبول سیاسی رہنما قرار دیا گیا، 70% پاکستانیوں نے ان کے بارے میں مثبت رائے دی۔ بانی تحریک انصاف کو پولیس نے 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا ۔جس کے بعد ان کے حامیوں نے ملک گیر احتجاج کیا۔ اور پھر سانحہ 9مئی ہوگیا، بعد میں سپریم کورٹ نے اُنہیں دو دن بعد رہا کر دیا۔ جس کے بعد 5 اگست 2023 کو توشہ خانہ کیس میں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ٹرائل کورٹ کے جج نے انھیں تین سال قید اور پانچ سال کی نااہلی کی سزا سنائی۔ اس کے بعد سے آج تک بانی تحریک انصاف پابند سلاسل ہیں۔ اگراُن کے بعد بدلنے والے حالات کی بات کریں تو یقینا میرے خیال میں سب کچھ ہی بدل گیا، مہنگائی 11فیصد سے بڑھ کر 49فیصد تک جا پہنچی ہے۔تحریک انصاف کے بعد حکومت پی ڈی ایم کو ملی جس کے روح رواں شہباز شریف یعنی موجودہ وزیر اعظم ٹھہرے۔ وہ کئی دہائیوں پر محیط مہنگائی کی بلند شرح کے بنیادی محرک اشیائے ضروریہ، خاص طور پر خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول نہ کر سکے جس کی وجہ سے پاکستان میں غربت کے سائے لمبے ہوتے گئے اور بہت سوں نے پاکستان کو چھوڑدیا ۔ایک سال میں حکومت کو بڑا قرضہ بھی لینا پڑا۔ تحریک انصاف کے کارکنان کو جس انداز میں گھر سے اُٹھایا گیا اور اُنہیں زدوکوب کیا گیا اس کو سیاسی حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنا گیا، اس دوران پنجاب میں کم و بیش ایک سال تک نگران حکومت نے کام کیا ، جس کے سربراہ محسن نقوی تھے، انہوں نے پولیس کو مکمل اختیارات دیے اور پولیس نے بھی اختیارات کا مکمل استعمال کرتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا خیال رکھے بغیر کارکنان کے کارروائیاں کیں۔ روان سال نگران حکومت کے زمانے میں فروری میں جو عام انتخابات کرائے گئے وہ اب تک متنازع قرار دیے گئے۔ انتخابت میں جھرلو پھیر نے کے اتنے الزامات لگائے گئے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں بات کی تفصیل میں جایا جائے تو آج کی حکمران اور سابقہ پی ڈی ایم حکومت نے آج تک کی ملکی معیشت زوال کا پھیری، کا ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت کو ہی ٹھہرایا۔ ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے اراکین کا پریس کانفرنس میں یہی موقف تھا کہ ہم تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت کی غلطیوں کو ہی ابھی تک ٹھیک کر رہے ہیں۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ رویہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا سرا بوجھ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔خیر حد تو یہ ہے کہ ابھی تک بھی حکومت کی کوئی واضح پالیسی بھی نظر نہیں آرہی،صرف یہی سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں سخت فیصلوں کرنے پڑیں گے‘‘ حالانکہ دو سالوں میں انہوں نے سینکڑوں سخت فیصلے کر بھی لیے ہیں؟ اور کم و بیش 15دفعہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اور یہی نہیں 18سے زائد مرتبہ پٹرول کی قیمتوں کو بھی بڑھایا ہے، اس کے علاوہ گیس کی قیمتیں 6گنا تک بڑھا چکے ہیں، حتیٰ کہ پانی کے بلوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ اور انہی ’’سخت فیصلوں‘‘ کی وجہ سے پاکستان میں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق محض دو سال کے دوران غربت کی شرح 31 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یوں پاکستان میں 10کروڑ افراد بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔اور یہ حال کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پاکستان کے تمام صوبوں کا ہے، پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں گذشتہ ایک سال کے دوران غربت کی شرح میں بدترین اضافہ دیکھنے میں آیا ہے دونوں صوبوں باالخصوص خیبر پختونخوا میں 43 فیصد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔بقول شاعر جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی آپ سندھ کو دیکھ لیں جہاں گزشتہ 16سالوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ عوامی فلاح کا صوبے میں کوئی مثالی کام نہیں کیا گیا۔ کسی ایک صوبے کو ٹھیک کرنے کے لیے اور کتنے سال چاہیے ؟ لیکن اب اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں بھی پیپلزپارٹی صوبے کو ٹھیک کر لے گی تو یہ محض دیوانے کا خواب نظر آتا ہے۔ مرکز کو د یکھیں تو دو سالوں میں اگر سب سے بڑی چیز ہمارے ہاتھوں سے چلی گئی، وہ ہے حکومتی عہدیداروں کے اختیارات اور ان کی فیصلہ کرنے کی قوت۔ حکومت وزیر اعظم ہائوس کی چار دیواری تک محدود ہو چکی ہے۔ لہٰذاگزارش ہے کہ اس ملک میں پالیسیوں کے تسلسل کے لیے حکومتوں کو چلنے دیں، عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اُنہی کو حکومت سونپیں جو یہ سب کچھ کر سکتے ہیں، ورنہ انہوں نے نہ پہلے اس ملک کو ٹھیک کیا ہے اور نہ یہ آج بھی کر سکیں گے!