جناب انوار الحق کاکڑ صاحب،ایک اعلی تعلیم یافتہ سلجھے ہوئے اور وفاق پاکستان سے محبت رکھنے والے پشتون ہیں ۔بلوچستان سے تعلق ا ن کی ایک اضافی اہلیت ہے۔ شائستگی سے بات کرتے ہیں اور اپنی باڈی لینگوئنج سے پر سکون اور پراعتماد نظر آتے ہیں۔اس وقت وفاق پاکستان کے سب سے اہم منصب وزارت عظمی پر فائز ہیں۔ ان کا انتخاب کس طرح ممکن ہوا اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ نگراں حکومت کے لئے ان کا نام سب کے لئے حیرت ( خوشگوار) کا باعث ضرورہوا۔نگران حکومت کا قیام ایک آئینی تقاضہ ہے جو ایک متعین مدت کے لئے تشکیل دی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد غیرجانبداری کے ساتھ انتخابات کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنا نا ہے۔تاکہ جو ضروری اقدامات اور فیصلے ناگزیر ہوں انہیں الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کی مدد سے ممکن بنایا جا سکے۔ وفاق ،سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اگست میں تحلیل ہوئی ہیں اور چونکہ وہ اپنی طے شدہ مدت سے کچھ روز پہلے وزیر اعظم اور متعلقہ وزرائے اعلی کی تجاویز پر ختم کی گئی ہیں لہذا آئینی تقاضہ کے مطابق نوے روز میں نئے الیکشن کرانا ضروری ہیں۔اور اسی مدت کے لئے نگران حکومت کو اختیار ات حاصل ہوتے ہیں۔موجودہ نگران حکومت کے ضمن میں ابتدا سے ہی یہ بات سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع رہی ہے کہ کیا انتخابات کا انعقاد نوے روز میں ممکن ہو سکے گا۔شکوک و شبہات میں اضافہ کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ اول تو یہ کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے انتخابات طے شدہ آئینی مدت میں نہیں ہوئے ۔ یہ دونوں اسمبلیاں اس سال جنوری میں تحلیل کی گئی تھیںاور ان کے لئے انتخابات اپریل میں کرائے جانے تھے مگر غیر یقینی سیاسی حالات ا ور وفاق میں بر سر اقتدار اتحادی حکومت کے لئے سازگار موزونیت نہ ہونے کے باعث ان کے انعقاد میں تاخیری حربے اختیار کئے جاتے رہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا گیا ۔لہذا اب دیگر اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ ا نتخابات بھی مقررہ آئینی مدت میںہو جائیں گے؟ دوم یہ کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے نگران حکومت کے اختیارا ت میں اضافہ کے لئے کی گئی قانون سازی سے بھی اس خیال کو تقویت ملی کہ یہ حکومت نوے روز سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس پر مستزاد سابقہ حکومت نے جاتے جاتے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مردم شماری کے نتائج کو جس عجلت سے مشترکہ مفادات کی کونسل سے منظور کرایا،جس کا ممکنہ نتیجہ نئی حلقہ بندیاں اور اسمبلیوں کی نشستوں کا از سر نو تعین جیسے ضروری اقدامات کرنے کے لئے تاخیر کی صورت نکلنا تھا ، صریح بد نیتی پر مبنی تھا۔ اس صورتحال میں کچھ سیاسی جماعتیں انتخابات کو نوے روز میں کرانے کے لئے نگران حکومت پر دبائو ڈال رہی ہیں، جب کہ کچھ سیاسی جماعتیں اور سیاست دان مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں پر مصر ہیں ۔ نوے روز میں انتخابات کا انعقاد اور مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کا تعین دونوں ہی آئینی تقاضے ہیںمگر سچ تو یہ کہ ہر دو کے لئے سیاسی جماعتیں دہری ( یا دوغلی ) حکمت عملی کا شکار ہیں۔ پاکستان پپلز پارٹی جو سبکدوش ہونے والی اتحادی حکومت کا حصہ تھی، ان کی حکومت کے دورانئے میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات مقررہ نوے روز میں نہیں کرائے گئے تب پپلز پارٹی کو یہ آئینی تقاضہ یاد نہیں رہا،پھر جب مشترکہ مفادات کی کونسل میں مردم شماری کے نتائج کو منظوری کے لئے پیش کیا گیا تب سندھ کے وزیر اعلی نے جن کا تعلق اسی جماعت سے تھا انہوں نے اس کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی یہ جانتے ہوئے کہ ان نتائج کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہوگا اور اس صورت میں میں نوے روز میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا ۔اب ان کی جانب سے یہ مطالبہ محض سیاسی ساکھ کی بہتری کی ایک کوشش ہے اور کچھ نہیں۔ دوسری طرف نئی حلقہ بندیوں پر اصرار کرنے والی سیاسی جماعتیں،بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان،اپنی ناقص سیاسی کارکردگی کے باعث فوری طور پر عوام کا سامنا کرنے سے پریشان ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اس میں جتنی بھی تاخیر ممکن ہو سکے وہ ہو جائے تاکہ انہیں سیاسی طور پر سنبھلنے کے لئے وقت مل سکے۔تاہم ملکی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دو آئینی تقاضوں میں سے ترجیحا نو ے روز میں ( یا جتنا جلد ممکن ہو ) انتخابات کے آئینی تقاضے کو اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ عالمی سطح پربھی پاکستان کے بگڑتے ہوئے سیا سی اور معاشی حالات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے اور ان کے نزدیک بھی یہ ضروری ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہو اور حکومت منتخب نمائندوں کو منتقل کردی جائے ۔ایک منتخب حکومت ہی دور رس نتائج کی حامل پالیسیوں کو عوامی تائید و حمایت سے نفاذ کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔تما م اہم اور بڑے فیصلوں کا اختیار ایک منتخب حکومت کو ہی حاصل ہوتا ہے جس کے لئے وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ لہذا انتخابات میں غیر معمولی تاخیر ملک کے لئے کسی بھی طرح مناسب نہیں۔سیاست دانوں کی جانب سے مختلف آئینی تقاضوں کی نشان دہی کا مقصد نگرا ں حکومت کو الجھانا ہے جس بچنا اس حکومت کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ نگران حکومت کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے ۔بجلی کے ہوش اڑادینے والے بل ہوں یا ڈالر کے سامنے پاکستانی روپے کی مسلسل گراوٹ۔ مہنگائی کا بے قابو جن ہو یا بے روزگاری کا عفریت،زرمبادلہ کی کمیابی ہو یا قرضوں پر سود کی ادائیگی جیسے معاملات ان سب سے نمٹنا اور ان پر کسی حد تک قابو پانے کی کوششیں نگران حکومت کو ایسی سیاسی بھول بھلیوں میں پہنچا دینگی جہاں سے نیک نامی کے ساتھ باہر نکلنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اختیارات کی موجودگی کے باوجود نگران حکومت کے لئے بہتر اور محفوظ راستہ یہی ہے کہ وہ خود کو کم سے کم معاملات میں ا لجھائے اور ساری توجہ الیکشن کی تیاریوں پر رکھے ۔غیر جانبداری کے ساتھ الیکشن کا انعقاد ہی ان کا بنیادی فریضہ ہے اور اسی اہم کام کے لئے انہیں اختیار حکومت حاصل ہوا ہے ۔ سیاسی دوستیاں ہوں یا پھر دشمنی کی سیاست انہیں ہر صورت اس سے اپنا دامن بچانا ہوگا ۔نیک نام انوار الحق کاکڑ اسی صورت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نیک نام رہ پائینگے۔باقی رہے نام اللہ کا ۔ ٭٭٭٭٭