کیا کوئی تصور کر سکتا ہے ، کہ دنیا میں ایسی عدالتیں بھی موجود ہیں جن میں 360ڈگری تک لچک پائی جاتی ہے، یعنی آپ اُنہیں جس انداز میں چاہیں مولڈ کر سکتے ہیں، ان عدالتوں میں میکسیکو، روس، الجیریا، ایران ، مالے، پاکستان ، نائیجیریا، کمبوڈیا وغیرہ کی عدالتیں سرفہرست ہیں۔ یہاں آپ کو عام آدمی کو انصاف دینے میں اتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ اُس کی کئی نسلیں کیس لڑتی رہتی ہیں، اور آخر میں کہا جاتا ہے کہ صلح کر لیں۔ لیکن اس کے برعکس یہاں یہ عدالتیں حکمرانوں اور اشرافیہ کے لیے 24گھنٹے، 7دن بلکہ پورا سال کھلی رہتی ہیں۔ اور فوری ’’انصاف‘‘ بھی فراہم کرتی ہیں، تبھی دنیا میں ان ممالک کا نمبر140کے بعد ہی آتا ہے۔ آپ پاکستان کی مثال لے لیں یہاں حال ہی میں ایک خبر سامنے آئی ہے کہ ایک عا م آدمی ایک بنک کے خلاف کیس کرتا ہے اور صرف اٹھائیس سال بعد اسے انصاف مل جاتا ہے۔بڑا خوش قسمت شخص ہے اور اس شخص کی ہمت قابل داد ہے کہ اٹھائیس سال تک انصاف کے لئے جدوجہد کرتا رہا وگرنہ عام لو گ بڑی حد تک پانچ چھ سال کی مشقت کے بعد تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔اٹھائیس سال ایک لمبا عرصہ ہے اس عرصے میں ہمت تو کیا بہت سے زندگی بھی ہار جاتے ہیں۔ یہاں عام آدمی کے مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں۔ دادے کا کیاہوا پوتے بھگتتے ہیں۔ہاں آپ اگر انصاف خرید سکتے ہیں تو آپ کی مشکلیں جلد ختم ہو جاتی ہیں۔ جمعرات کومیاں نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی تھی اور اتفاق سے راقم بھی اسی ایریا میں موجود تھا، سابق وزیر اعظم کا پروٹوکول دیکھا تو دنگ رہ گیا، میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ ’’اے کاش ہمارے صدر ایک صدارتی آرڈیننس جاری کردیں جس میں نواز شریف کو براہ راست وزیر اعظم ڈکلیئر کر دیں‘‘ تاکہ اتنی خفت نہ اُٹھانی پڑے اور نہ ہی اُن کے لیے ادھر اُدھر کی کہانیاں گھڑنی پڑیں۔ خیر یہ تو میرے جذبات ہیں نواز شریف کے لیے اللہ کرے ایسا ہی ہو جائے اور ہمیں 8فروری کا الیکشن دیکھنا نصیب ہو۔ کیوں کہ چاہتے ،نہ چاہتے ہوئے بھی کسی قسم کا الیکشن کا ماحول نہیں بن رہا۔ سابق وزیر اعظم پر سب سے اہم کیس العزیزیہ ریفرنس کیس ہے،،، جس میں موصوف کو 7سال قید ہوئی تھی اور دس سال تک کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے نااہل ہو گئے تھے۔ اب اس کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری ہے، گزشتہ روز ڈویژن بینچ نے کیس میرٹ پر سننے کا فیصلہ کر لیا جبکہ العزیزیہ ریفرنس دوبارہ سماعت کے لیے احتساب عدالت کو بھجوانے کی نیب کی استدعا مسترد کر دی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عدالت طریقہ کار یا دائرہ اختیار کے معاملات کی بجائے مقدمے کے اصل نکات کی سماعت کرے گی جس میں الزام، دفاع، شواہد وغیرہ شامل ہیں۔ اب کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے، جس میں ممکنہ طور پر نواز شریف کو بری کر دیا جائے گااور سزا معطل ہوجائے گی ۔ العزیزیہ ریفرنس کیس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ 3 اپریل 2016 کو پاناما کی لا فرم موزیک فونسیکا کی لیک ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات نے تہلکہ مچایا۔ جس میں دنیا بھر کے امیر افراد کی جانب سے اثاثہ جات ’’آف شور‘‘ کمپنیوں کے ذریعے چھپائے جانے کا انکشاف ہوا، دستاویزات میں نواز شریف سمیت کئی حکمرانوں کے نام سامنے آئے۔ ان دستاویزات میں انکشاف ہواتھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اوان کے ربچوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں فلیٹس بھی ہیں جس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی گئیں کہ یہ اثاثے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائے گئے۔جس کے بعد معاملے کی تحقیقات شروع ہوئیں، سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا اور اسی کیس میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کوتاحیات نااہل قرار دے دیااور نیب کو تین ریفرنس دائر کرنے کاحکم دیا۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے نواز شریف اور ان کی اولاد کیخلاف تین ریفرنس 8 ستمبر 2017 کو احتساب عدالت میں دائر کئے، نیب پراسیکیوٹر کے مطابق نواز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دوران حسن اور حسین نواز کے نام بے نامی جائیدادیں بنائیں، اس دوران بچے زیر کفالت تھے، بچوں کے نام 16 آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔4.2 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کیلئے بچوں کے پاس کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے، نواز شریف ہی العزیزیہ اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک ہیں، شریف خاندان کا موقف ہے کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدارانہ ہے، بچوں نے دادا سے ملنے والی رقم کے ذریعے مل اور کمپنی بنائی، العزیزیہ سٹیل ملز قطری سرمایہ کاری سے خریدی گئی۔ حسن نواز کو کاروبار کیلئے سرمایہ بھی قطری نے فراہم کیا، جس کی بنیاد پر فلیگ شپ کمپنی بنائی گئی، تمام جائیدادیں بچوں کے نام ہیں، نوازشریف کا اِن جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اب آتے ہیں کہ العزیزیہ ریفرنس کیا ہے؟ تو قارئین العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس سعودی عرب میں 2001 میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005 میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی قائم کی گئی۔نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ اسٹیل ملز کے قیام اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے۔کیس چلتا رہا اور پھر یوں ہوا کہ عدالتیں اس سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر رہی تھی،،، ،،،یقین مانیں مجھے نواز شریف کے بری ہونے یا اُن کے بے قصور ہونے پر اعتراض نہیں ہے،،، بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ کیا ہمارا کوئی دین ایمان ہے؟ ہم ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت کیوں ہر چیز کو اپنی مطابق مولڈ کر لیتے ہیں؟ اور پھر یہی نہیں،،، ہم تو مخالفین کو دبانے کے لیے اپنے ’’بندے‘‘ بھی عدالتوں اور اداروں میں بھرتی کرواتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آسکیں! آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی کیا ایسا رویہ رکھنے کے بعد کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ملک ترقی کرے گا۔ یقین مانیں ترقی یافتہ ملکوں میں عدالتوں اور قوانین کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ بلکہ اس حوالے سے چرچل کا قصہ سن لیں کہ دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور جرمن جہازوں کے حملوں سے بہت سا جانی نقصان بھی ہو رہا تھا اور ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے۔ ان ابتر حالات میں ایک شخص نے ملکی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے پوچھا،’’کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں‘‘۔ اسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہمکر رہے ہیں۔ چرچل نے کہا کہ شکر ہے، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ایک سسٹم بنائیں ، بلکہ ایک ایسا سسٹم مرتب کیا جائے کہ عدالتوں اور اداروں میں سیاسی بھرتیاں نہ ہوسکیں،،، کیوں کہ جب تک سیاسی بھرتیاں جاری رہیں گی ملک ترقی نہیں کر سکتا… اور پھر اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر قوانین کے ساتھ مذاق نہ کریں اور طاقتور کو فوری انصاف دے دیں۔ اس سے اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور فوری انصاف بھی مل جائے گا!