سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف چار سال بعد پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ وہ عدلیہ میں بیان حلفی جمع کروا کرجیل سے سیدھا لندن علاج کی غرض سے گئے تھے، وہ اپنے محتاط خطاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ وہ یہاں امن کے سفیر کے طور پر آئے ہیں، اپنے خطاب سے پہلے انہوں نے جس انداز میں کبوتروں کا ’’استعمال‘‘ کیا ، اُس پر بھی خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ کہ اس مرتبہ شیر کے بجائے جلسے میں کبوتر کا استعمال کیوں کیا گیا۔جو بادی النظر میں ایک ایسا پرندہ ہے جسے دنیا میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ پھر میاں صاحب نے اپنے شعروں میں شکوے شکایات بھی کیں مگر دھیمے انداز میں جیسے شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعے جوڑے کہ کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں ذرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں پھر انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں، ’میں قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘ اور قوم کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں‘، نواز شریف نے اپنی تقریر میں تفصیل سے اپنے پرانے دور کا موجودہ حالات سے موازنہ کیا اور کہا کہ ماضی کی نسبت مہنگائی میں کئی گنا اضافہ اور ملک کی معیشت گھمبیر صورت حال سے دو چار ہوئی۔انہوں نے وعدہ تو کیا کہ وہ ملک کے حالات کو بدلیں گے لیکن اس لیے کوئی جامع حکمت عملی نہیں بتائی۔انہوں نے 9نکاتی پلان ضرور دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ اس پر عمل درآمد ممکن بھی ہے یا نہیں؟ قصہ مختصر کہ ان کی یہ تقریر وطن واپسی پر اپنی جماعت کے حامیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر انہیں آئندہ انتخابات میں کامیابی ملی تو ان کی ترجیحات مہنگائی کا خاتمہ اور ملک کو معاشی مشکلات سے باہر نکالنا ہو گا۔لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں کہیں الیکشن کروانے کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے مفاہمت کے حوالے سے بات کی۔ لیکن یہ ضرور کہا کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ چلیں مان لیاکہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر مقدمات سیاسی نوعیت کے تھے، یہ بھی مان لیا کہ اُن سے اقتدار زبردستی واپس لیا گیا، اور یہ بھی مان لیا کہ اُن کا ملک سے جانا ٹھیک تھا ورنہ اُن کی صحت کو یہاں کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ لیکن ان عدالتوں کا کیا کیا جائے جہاں موصوف کے خلاف اگر جھوٹے یا سچے مقدمات بنائے گئے۔ یعنی نظریہ ضرورت کے تحت اگر اداروں کو ماضی میں استعمال کیا گیا یا متوقع طور پر اب بھی کیا جائے گا تو کیا ایسے میں پاکستان ٹھیک ہو جائے گا؟ ۔ ایسا کرنے سے پاکستان عالمی سطح پر مزید رسوائی کا شکار ہوگا۔ لیکن خیر اب چونکہ حضرت تشریف لا چکے ہیں اور چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے آئے ہیں تو لاکھوں کا سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس نیا پیکج کیا ہے؟ ٹھیک ہے تقریر میں آپ نے اپنے زمانے کے بہت سے کارنامے سنائے، لیکن یہ نہیں کہا کہ تمام موٹرویز گروی کس نے رکھوائے اور کس کے دور میں رکھوائے گئے ہیں؟ پھر یہ بھی نہیں بتایا کہ کس کے دور میں ریڈیو پاکستان کی تمام عمارتوں سمیت بڑی بڑی سرکاری بلڈنگز کو گروی کس کے دور میں رکھوایا گیاہے؟ پھر یہ بھی نہیں بتایا کہ تمام ائیرپورٹس کس کے دور میں گروی رکھوائے گئے ؟پھر یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان کے دور میں پاکستان پر کتنا قرضہ بڑھا؟ 2013ء میں پاکستان پر کتنا قرض تھا اور جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو کتنا قرضہ تھا۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کے دور میں جو قرضہ لیا گیاتو اُسے کتنے سال میں واپس کرنا تھا۔ بھی نہیں بتایا گیا کہ اُن کے لیے گئے قرضے کہاں استعمال ہوئے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ انہوں نے اپنے بعد میں آنے والے ادوار میں کتنا قرضہ ری شیڈول کروایا تھا ؟خیر اگر ا اب وہ دوبارہ پاکستان آ گئے ہیں تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ منموہن سنگھ کو دوبارہ کوئی کتاب لکھنی نہ پڑے۔ کیوں کہ ہمیں تو اُن کی ابھی پچھلی کتاب ہی نہیں بھولی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے نواز شریف کا فون آرہا تھا، اور میں پریشان تھا کہ شاید اُس کال میں کشمیر پر بات ہوگی، لیکن انہوں نے محض اپنے ذاتی مفادات کی بات کی۔ بہرکیف اب چونکہ اُن کی عمر کا تقاضا ہے کہ اُنہیں سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔ اپنے ملک کی بہتری کے لیے سوچیں اور اگر ہو سکے تو معاملات نئی نسل کو سپرد کرکے اُن کو یہ بتائیں کہ جنت جلسوں میں آنے سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنے سے ملتی ہے۔ اور کیوں کہ آپ کو اگر اللہ نے عزت سے نواز ا ہے تو اُسے عوام کے لیے رکھیں، لیکن بظاہر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا بلکہ ہمیں تو یہی لگ رہا ہے کہ شہباز شریف اور اُن کے حواری میاں نواز شریف کو ’’دکھا دکھا‘‘ کر لوگوں سے ووٹ مانگیں گے، کہ دیکھو پچھلے 16ماہ کو چھوڑو۔ ہم جو شاہکار آپ کے لیے لائے ہیں، اُسے دیکھو اور تصور کرو کہ 2017ء جیسا پاکستان آپ کے سامنے ہوگا ! بہرحال سوال یہ ہے کہ ہمارے کہنے یا چاہنے سے وہ کیوں سیاست کو خیر آباد کہیں گے؟ اگر انہوں نے کہنا ہوتا تو وہ لندن میں ہی یہ کام کر کے آتے۔ ہم تو صحافی ہیں صحیح رائے سینافرض ہے، اس لیے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کے آنے سے ملک میں حقیقی جمہوریت کا دور پھر سے آجائے۔ جو چند ماہ سے رکا ہوا ہے۔ اور آپ سے سبھی یہی اُمید رکھیں گے کہ آپ اس ملک کو مزید انتقامی سیاست کی طرف نہیں دھکیلیں گے، کیوں کہ جیسا آپ نے کہا ہے کہ میں انتقام لینے نہیں آیا تو یہ بات کردار سے بھی جھلکنی چاہیے۔ جیسے تمام سیاسی لیڈر رہا ہونے چاہیے، کوئی سیاسی کارکن جیلوں میں نہ رہے، سانحہ 9مئی کے حوالے سے عام معافی ملنی چاہیے۔ کیوں کہ اگر آپ کے بقول آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو پھر باقی لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، اُنہیںبھی آپ کو محسوس کرنا چاہیے۔ بلکہ آپ کا تو پہلا کام ہی یہ ہونا چاہیے کہ کسی پر کوئی سیاسی مقدمہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاکہ یہ ملک مثبت انداز میں آگے بڑھ سکے!