پاکستان کو قائم ہوئے آج 76برس ہو چکے ، یہ ملک جن قربانیوں کے عوض ملا، شاید ہم نے اُس کا عشر عشیر بھی نہیں حاصل کیا۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک بات تو سچ ہے کہ اس خطے میں اپنوں سے زیادہ بیرونی افراد کا عمل دخل رہا۔ خواہ وہ بھارت کی شکل میں ہو، امریکا کی شکل میں یا روس کی شکل میں۔ ہمیں قائداعظم کے بعد کوئی ایسا لیڈر نہیں ملا، جس نے خالصتاََ پاکستان کے لیے کام کیا ہو۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں محض اسی اسمبلی کو ہی دیکھ لیں جو چند روز پہلے ہی تحلیل ہوئی، اس اسمبلی میں کل 322 بل منظور کیے گئے جو گزشتہ اسمبلی سے 117بل زیادہ تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک بل بھی مفاد عامہ کے لیے منظور نہیں کیا گیا۔ بلکہ میں یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ اس اسمبلی کے پہلے ساڑھے تین سالہ عمرانی دور میں 150کے قریب بل منظور ہوئے جبکہ اگلے ڈیڑھ سالہ شہبازی دور میں 172 بل پاس ہوئے۔ خیر اس ڈیڑھ سالہ اسمبلی نے جو ناقص کارکردگی دکھائی ہے، جو قانون سازی ہوئی ہے، اور جو درجن بھر ممبران کی موجودگی میں قوانین پاس کیے گئے ہیں ، اُسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ ہمیں اس کا خمیازہ اگلے 75سال بھگتنا پڑے۔ اس اسمبلی کے لیے تو سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے اپنے رہنماشاہد خاقان عباسی بھی کہتے ہیں کہ 5 سال جو اسمبلی میں ہوا وہ ہم سب کیلئے باعث شرم ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہاں جو فرنٹ سیٹ پر آج بیٹھے ہیں وہ سارے جیل میں رہے، سب نے ایک دوسرے کو جیل میں بھیجا، یہاں لڑائیاں ہوئیں،کون سی گالیاں ہیں جو یہاں نہیں دی گئیں؟انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے اگلی اسمبلی میں آئندہ جوآئیں گے وہ ایوان کا تقدس بحال کریں گے، ہم نے سبق نہیں سیکھا جو سیکھنا چاہیے تھا، یہاں پچھلے دنوں 75 یونیورسٹیوں کے قیام کے بل منظورہوئے، آپ کو ایسے کاموں کو روکنا چاہیے تھا، یہاں عام تاثر یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کرپٹ ہیں۔ اور پھر اس ڈیڑھ سالہ اسمبلی کے وزیر اعظم شہباز شریف اپنے ماتحت کی تعریفوں کے پل بھی بسا اوقات باندھتے نظر آئے، یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے ذوالفقار علی بھٹو ایک بار کسی بیرونی دورے سے واپس آرہے تھے ، اُس وقت فضل الٰہی چوہدری صدر پاکستان تھے، تو فضل صاحب ائیر پورٹ پر بھٹو کے استقبال کے لیے جانے لگے تو اُس وقت کے ملٹری سیکرٹری نے سمجھایا کہ بے شک آپ کو اُن سے عقیدت ہے، آپ اُن کے چمچے کڑچھے ہیں، لیکن آپ صدر پاکستان بھی ہیں، آپ اُنہیں Receiveکرنے نہیں جا سکتے۔ یعنی ’’سیٹ ‘‘کا کوئی سٹیٹس ہوتا ہے، لیکن انہوں نے تو اُس کا بھی خیال نہیں رکھااور بدلے میں اپنی سیٹ ہی کی توہین کرتے رہے۔ یعنی کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم 76سالوں میں اتنے ہی آزاد ہوئے ہیں کہ چاپلوسی کی حددوں کو چھونے لگے ہیں۔ خیر یہاں حالات یہ ہیں کہ یہاں میثاق معیشت کیا آنا؟ یہاں تو جب ایک پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو دوسری پارٹی کے لوگوں کو چن چن کر جیلوں میں ڈالتی ہے، جبکہ دوسری پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو پہلی والی پارٹی کے رہنمائوں سے گن گن کے بدلے لیے جاتے ہیں۔ اور پورے ملک میں غدار غدار کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ غداروں کی سرزمین پر رہ رہے ہیں! حالانکہ ہم کسی آفیسر کے خلاف ہو سکتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پورے محکمے کے خلاف ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم کے خلاف ہو سکتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف تو نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم زرداری کی پالیسیوں کے خلاف ہیں تواس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ ہم پیپلزپارٹی کے خلاف ہیں، اسی طرح اگر ہم نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ ہم پوری ن لیگ کے خلاف ہیں، اگر آج ن لیگ جمہوری پارٹی بن جائے، اپنے اندر سے موروثیت ختم کر دے، ذاتی مفادات کے بجائے پاکستان اور اس کے عوام کا سوچے تو آج ہم ن لیگ کے ساتھ ہو جائیں گے، اگر پیپلزپارٹی میں سے زرداری صاحب نکل جائیں اور پرانے خالص سیاستدان رہ جائیں تو پاکستانیوں کو کیا تکلیف ہو گی کہ وہ پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے میں ہچکچائیں ۔ اس لیے میرے خیال میں ہر سیاسی جماعت پاکستان کا حُسن ہے، لہٰذاپارٹی کبھی بری نہیں ہوتی، اگر تحریک انصاف سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں تو اُنہیں سدھارا جا سکتا ہے، مگر اُسے سرے سے ختم کرنا بدیانتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم انہی بدیانتیوں کی وجہ سے آج دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں، دنیا کہتی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو جھوٹ بولنے والوں میں سب سے آگے ہیں، دنیا کہتی ہے کہ یہ انصاف دینے والوں میں سے بھی نہیں ہیں، دنیا کہتی ہے کہ یہ سانحہ ماڈل ٹائوں کے شہدا کو آج تک سزا نہ دے سکے،یہ سانحہ ساہیوال کیس میں کسی کو سزا نہ دے سکے۔ بلکہ دنیا کے سامنے ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے بھٹو جیسے لیڈر کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ، ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے قائداعظم کو صحیح علاج معالجہ نہ دے سکے ، ہم شرمندہ ہیں کہ بعض مقدمات میں تو عدالتیں رات 12بجے بھی کھل جاتی ہیں، مگر لاکھوں مقدمات کے فیصلے کئی کئی سال تک نہیں ہوتے، ہم شرمندہ ہیں کہ یہاں عدالتیں بھی چوروں، لٹیروں اور ڈاکوئوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ورنہ کسی کی کیا جرأت کہ وہ ایک روپے کی بھی کرپشن کر سکے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ کئی بے گناہ جیل میں ہی مر گئے، اور مرنے کے بعد اُن کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے، ہم شرمندہ ہیں کہ یہاں 10روپے کی کرپشن کرنے والے آفیسر کی پروموشن نہیں ہو سکتی مگر کیا انصاف ہے کہ درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے کو بڑے سے بڑا وزیر بنا دیا جاتا ہے، مطلب جس پر جتنے زیادہ کیسز اُسے اُتنا بڑا عہدہ مل جاتا ہے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ مسلم لیگ بھی وہ مسلم لیگ نہیں رہی، اب اس میں لٹیرے زیادہ ہو چکے ہیں، مطلب قائداعظم کی مسلم لیگ اب لٹیروں، چوروں اور سرمایہ داروں نے سنبھال لی ہے، جو جتنا پیسہ لگائے گا، اتنا ہی کمائے گا۔ پیپلزپارٹی بھی بھٹو کی پیپلزپارٹی نہیں رہی بلکہ وہاں ڈیلنگ کرنے والے بہترین دماغ بیٹھے ہیں، جنہیں نہ تو عوام سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اُن کا عوامی مسائل سے کوئی لینا دینا۔ اے کاش کہ ہمارے حکمران بھی دنیا کے لیے بالکل اُسی طرح مثال بن جاتے جس طرح ایک جھوٹ بولنے پر صدر نکسن کو گھر بھجوادیا جائے، جس طرح جھوٹ بولنے پر صدر کلنٹن کا مواخذہ ہو جائے،جس طرح تحفے میں ملی دو عینکیں ڈکلیئر نہ کرنے پر کینیڈین وزیراعظم کی تفتیش ہو، وہ جرمانہ بھرے، جس طرح سلووینیا کا سیاستدان ایک سینڈ وچ چوری کرنے پر پارلیمنٹ کی رکنیت کھو بیٹھے ،جس طرح سرکاری خرچ پر ناشتہ کرنے پر فن لینڈ کی وزیراعظم انکوائریاں بھگتے، جس طرح صوابدید سے زیادہ فنڈز اپنے حلقے میں خرچ کرنے پر برطانوی پارلیمنٹرین کی رکنیت چلی جائے، جس طرح انتخابات میں زیادہ پیسے خرچ کرنے پر فرانسیسی صدر سرکوزی کو سزا ہو جائے، جس طرح کورونا رولز کی خلاف ورزی کرکے پارٹی کرنا برطانوی وزیراعظم کو لے ڈوبے لیکن 14اگست ہم تم سے شرمنہ ہیں کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں اربوں روپے ڈکارنے کے بعد بھی اقتدار ملتا ہے اور درجنوں قتل کرنے کے بعد بھی وزارتیں مل جاتی ہے اور خان جیسے سیاستدان رگڑے میں آجاتے ہیں کہ وہ ’’بے ایمان‘‘ ہیں! واہ رے قسمت!