پچھلے دو عشروں سے یورپ کے مختلف ممالک (ڈنمارک، ناروے، فرانس اور اب سویڈن) میں توہینِ رسالت، توہینِ قرآن اور توہینِ اسلام کے نفرت انگیز اعمال کا ارتکاب ریاستی آشیرباد سے کیا جاتا رہا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ تجویز دی ہے کہ اس موضوع پر مغرب سے مکالمے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے پر مکالمہ کہاں کیا جائے؟ ایک فورم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہے جہاں قرارداد لائی جاسکتی ہے اور اگر تھوڑی سنجیدگی سے لابنگ کی جائے تو شاید منظور بھی ہوجائے۔یہ درست ہے کہ جنرل اسمبلی سے منظور شدہ قرارداد کوئی حکمی (binding) حیثیت نہیں رکھتی، لیکن اگر 57 اسلامی ممالک مل کر ایک خواہش کا اظہار کریں اور اس خواہش کے اظہار میں ان کے ساتھ دیگر ممالک شامل ہوجائیں اور جنرل اسمبلی کی اکثریت اس کا اعلان کرے، تو اس کا اثر یقیناً بہت زیادہ ہوگا۔ جنرل اسمبلی کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے، جو اقوامِ متحدہ کی عدالت ہے، قانونی سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون کی رو سے کسی کو توہینِ مذہب کا "حق" دیا جاسکتا ہے؟مثلاً امریکا، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور ان کے ساتھیوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کرکے اس عدالت سے پوچھا کہ وہ واضح کرے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر کی قانونی حیثیت کیا ہے، بحیثیتِ قابض طاقت کیا اس کے پاس یہ اختیار ہے، اس دیوار کی تعمیر کے قانونی نتائج کیا ہیں؟ پھر عدالت نے اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لے کر اس پر بین الاقوامی قانون کی رو سے اپنا فیصلہ دیا۔ توہینِ مذہب کے معاملے میں بھی یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار ہے اور اچھی خاصی تیاری کے بغیر اور انتہائی ماہر متخصصین کی ٹیم بنائے بغیر اس آپشن کا سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ اس عدالت سے بین الاقوامی قانون برائے حقوقِ انسانی کی ایسی تشریح حاصل کرنا، جس کی رو سے توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن کا راستہ رک جائے، اس وقت تک محض خواب و خیال ہی رہے گا جب تک خود مسلمان اہل علم اور قانون دان اس پر محنت نہ کریں اور مسلمان ریاستوں کی جانب سے انھیں بھرپور تعاون اور مدد حاصل نہ ہو۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ ایک تو اس کے مستقل ارکان میں، جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے، ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ دوسرے، سلامتی کونسل کا تعلق "بین الاقوامی امن کے تحفظ اور اس کی بحالی" سے ہے اور کم از کم اس وقت تک بین الاقوامی امن کو توہینِ مذہب سے کوئی واقعی خطرہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ البتہ اگر مسلمان ممالک نے توہینِ مذہب کو جنگی اقدام قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کو اپنا حق قرار دیا تو اس صورت میں یقیناً سلامتی کونسل کو ہنگامی بنیادوں پر اس جنگ کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان ممالک ایسا کرسکتے ہیں؟ مسلمان ممالک تو اس وقت یہ تک نہیں کرپارہے کہ حقوقِ انسانی کی کمیٹی میں ہر سال رپورٹ پیش کرتے وقت یہ موقف اختیار کریں کہ توہینِ رسالت (اور اسی طرح حدود اور دیگر اسلامی احکام) کے معاملے میں ہم اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ پھر وہ یہ موقف پیش کر بھی لیں تو کیا کمیٹی یہ موقف مان لے گی؟ یہ معاملہ اقدار اور تصورِ جہاں کے اختلاف کا ہے جسے ایک دو تقریریں کرکے یا ایک دو مضامین لکھ کر، یا چند کتب شائع کرکے حل نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ میں مقیم مسلمان توہینِ مذہب کے مسئلے کو حقوقِ انسانی کا مسئلہ بنا کر یورپی عدالت برائے حقوقِ انسانی میں مقدمہ دائر کرنے کا بھی سوچ سکتے ہیں اور اسے قانونی انداز میں لڑا جائے اور ساتھ ہی مسلمان ریاستوں کی جانب سے عالمی سطح پر لابنگ ہوتو ممکن ہے کہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو۔ اسلامی اصولوں کی رو سے یہ بات طے ہے کہ توہینِ رسالت یا توہینِ قرآن کا جرم اگر انفرادی سطح پر کیا جائے تو یہ جرم ہوتا ہے لیکن اگر اس کی پشت پناہی حکومت کرے تو یہ مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام ہے۔ اس وقت اگر عدمِ استعداد کی وجہ سے ہم اس جنگی اقدام کے جواب میں جنگی کارروائی نہیں کرسکتے تو مسلمان ریاستیں آپس میں کم ازکم ایسا معاہدہ تو کرسکتی ہیں کہ ایسا اقدام کرنے والا شخص مسلمان ریاستوں کی نظر میں مجرم ہوگا اور اس کے خلاف کسی بھی مسلمان ریاست میں فوجداری مقدمہ چلایا جاسکے گا۔ جن افعال کو آج "انسانیت کے خلاف جرائم" قرار دیا جاتا ہے ، کسی دور میں انہیں "مسیحیت کے خلاف جرائم" کا عنوان دیا گیا تھا اور یورپی ریاستوں نے آپس میں ان کے متعلق سمجھوتے کئے تھے۔ اسی طرح مسلمان ریاستیں اگر اس مسئلے سے واقعی نمٹنا چاہتی ہیں تو ان کے لیے سب سے مناسب اور سب سے مؤثر راستہ یہی ہے۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر وہ اسے مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام بھی قرار دیں تو عالمی سطح پر اس سلسلے کو روکنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوجائیں گی۔ اس ضمن میں اسلامی تعاون کی تنظیم کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ پھر اگر بین الاقوامی سطح پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل کر معاہدہ کرنے میں رکاوٹ ہے تو کم از کم یہ کیا جاسکتا ہے کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور قرآن مجید ہی کی حد تک ایسا کوئی معاہدہ کیا جائے۔تاہم مسلمان ریاستوں کی آپس میں چپقلش اور کشمکش کی عجیب صورتیں پائی جاتی ہیں (مثلاً ایران/سعودی، سعودی/ترکی، ترکی/ایران) جن کی موجودگی میں کسی بامعنی نتیجے تک پہنچنا انتہائی حد تک مشکل کام ہے۔ پاکستان کی حد تک ایک کام اور بھی کیا جاسکتا ہے۔ 2006ء میں جب ڈنمارک میں بعض اخبارات میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تھے تو کراچی سے ایک درخواست گزار نے خاکے بنانے والوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی اور اس میں ناکامی کے بعد اس نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ حکومت نے موقف یہ پیش کیا کہ اس فعل کا ارتکاب پاکستان سے باہر کیا گیا ہے، اس لیے اس پر مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کا اطلاق نہیں ہوتا، لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے اس بنیاد پر ایف آئی آر کٹوانے کا حکم دیا کہ ان خاکوں سے پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ آج بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور یقین کیجیے کہ یہ طریقہ بہت مؤثر ہوگا۔ عملاً شاید اس کا امکان نہ ہو کہ توہین اور گستاخی کا ارتکاب کرنے والے یہ بدبخت کبھی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں اور انہیں یہاں فوجداری کارروائی کا سامنا کرنا پڑے، لیکن اس کام کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہوگی اور اگر اس طرح کے واقعات پر فوجداری مقدمات کااندراج ہونے لگے تو اس سے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جاسکے گا۔ کیا ہمارے وکلا ان واقعات کے خلاف ہڑتالوں کے بجائے ایف آئی آر کٹوانے کی طرف توجہ کرسکیں گے؟