میں نے غصے سے دانت پیسے اور تیزی سے ریوالور نکالا ۔ سفید فام کا قدچھ فٹ سے زیادہ تھا ۔ اس نے طلعت کی آڑ ضرور لے لی تھی لیکن اس کا سر، گلے تک نظر آرہا تھا کیوں کہ طلعت کا قد پانچ فٹ سے کچھ زیادہ تھا ۔ میں سفیدفام کے سر کو نشانہ بناسکتی تھی ۔ ’’ بے وقوف ہے یہ ۔‘‘ بانو کا انداز بڑبڑانے کا ساتھا ۔ ’’ ابھی رخصت کرتی ہوں اسے دنیا سے ۔‘‘ اور پھر ایک فائر ہوا ۔ گولی نے سفید فام کی پیشانی میں سوراخ کیا ۔ میں نے چونک کر بانو کی طرف دیکھا جن کی کار ہی سے چلائی گئی گولی سے سفید فام گرتا دکھائی دیا تھا ۔ طلعت اس کی گرفت سے نکل کر ہماری طرف دوڑی ۔ اسی وقت دو جانب سے گولیاں چلنے لگیں ۔ وہ آکر کار سے ٹکرا رہی تھیں حالانکہ ان بے وقوفوں کو معلوم تھا کہ کار بلٹ پروف تھی ۔ اسے ان کی بوکھلاہٹ ہی کہا جاسکتا تھا ۔ اندھا دھند کی جانے والی اس فائرنگ کی زد پر طلعت بھی آسکتی تھی ۔ ’’لیٹ جائو طلعت !‘‘ میں زور سے چیخی ۔ بوکھلائی ہوئی طلعت اس طرح اوندھے منہ لیٹی جیسے گر پڑی ہو ۔ میں نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔ ’’ میں طلعت کو لاتی ہوں کسی طرح! ‘‘ ’’ دروازہ بند کرو صدف !‘‘ بانو نے کہا اور کار حرکت میں آکر آگے بڑھی ۔ میں نے جلدی سے دروازہ بند کرلیا ۔ بانو نے کار طلعت کے قریب اس طرح روکی کہ سامنے سے اور بائیں جانب سے آنے والی گولیاں اس جگہ تک نہ پہنچ سکیں جہاں طلعت تھی ۔ ’’ کار میں آجائو !‘‘ میں نے طلعت سے کہتے ہوئے کار کا پچھلا دروازہ کھولا ۔ طلعت نے گھبرائی ہوئی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا اس کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا ۔ آنکھوں میں آنسو تھے ۔ دروازہ کھلا دیکھ کر وہ جلدی سے کار میں آکر سیٹ پر گری اور سسک سسک کر رونے لگی ۔ دروازہ بند بھی میں نے ہی کیا ۔ کار پھر حرکت میں آئی اور فائرنگ کی آواز میں شدت آئی ۔ میں سمجھ گئی کہ اب بانونے کار سے اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کردی تھیں ۔ گولیاں چلانے والے دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن کئی چیخیں سنائی دیں ۔ اسی طرح گولیاں برساتی ہوئی ہماری کار اس ٹیلے کے قریب پہنچی جسے عبور کر کے ادھر آئی تھی ۔ پھر کار یکایک فضا میں اٹھی ۔ ’’ باجی !‘‘ طلعت نے مجھے اس طرح پکارا جیسے چیخ پڑی ہو۔ کار فضا میں بلند ہونے کی وجہ سے وہ گھبرا کر چیخی تھی ۔ ’’ سیٹ کو مضبوطی سے پکڑ لو طلعت!‘‘ میں جلدی سے بولی ۔ لیکن اس وقت تک کار ٹیلے کے عبور کرتی ہوئی ڈھلوان پر پہنچ چکی تھی ۔ طلعت اس دھچکے سے سیٹ سے لڑھک کر اس کے پائے دان میں گری ۔ کار ، نا ہم وار زمین پر تیزی سے نیچے اتر رہی تھی ۔ ’’ طلعت اٹھو ۔ سیٹ پر بیٹھ جائو ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ سب ٹھیک ہے اب !‘‘ ’’ باجی !‘‘ طلعت اٹھ کر سیٹ پر بیٹھتی ہوئی رو دینے کے سے انداز میں بولی ۔’’یہ …یہ کیا ہوا تھا باجی !‘‘ کار ڈھلوان طے کر چکی تھی اور بانو نے اس کی رفتار کم کرتے ہوئے اسے سڑک پر بائیں جانب موڑ لیا تھا ۔ ایک جانب سے آتی ہوئی گاڑی والے نے جلدی سے بریک لگائے حالانکہ اس کا امکان نہیں تھا کہ وہ ہماری کار سے ٹکرا جاتی ۔ اس کے پیچھے دو گاڑیاں اور تھیں ۔ انھیں بھی بریک لگانے پڑے تھے ۔ یہ اتفاق تھا کہ جب ہماری کار اس طرف آئی تھی تو سڑک پر دور دور تک کسی گاڑی کا نشان نہ تھا ۔ کار سڑک پر سیدھی دوڑنے لگی ۔ طلعت نروس ہورہی ہے ۔ بانو نے مجھ سے کہا ۔ ’’ اس کے پاس چلی جائو ۔‘‘ ’’ہاں باجی!میرے پاس آئیں نا!‘‘ طلعت نے بالکل بچکانہ انداز میں کہا تھا ۔ وہ اس وقت کوئی بالغ لڑکی نہیں معلوم ہورہی تھی ۔ وہ جن حالات سے گزری تھی ، اس میں یہ قطعی فطری تھا ۔ میں جیسے ہی پچھلی سٹی پر پہنچی ، طلعت مجھ سے لپٹ کر رونے لگی ۔ میں اس کی پیٹھ تھپکنے لگی اور کہتی رہی ۔ ’’ سب ٹھیک ہے اب ! سب ٹھیک ہے طلعت ! اب ہم گھر جارہے ہیں ۔‘‘ طلعت بہ مشکل ہی چپ ہوسکی ۔ پانی پی کر طلعت میرے شانے سے لگ گئی لیکن اب وہ رو نہیں رہی تھی ۔ ’’ ان لوگوں نے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں پہنچائی؟ ‘‘ میں نے اس سے پوچھا ۔ طلعت نے نفی میں سر ہلایا ، پھر کچھ بھرائی ہوئی سی آواز میں بولی ۔ ’’ میں بس سو نہیں سکی ۔‘‘ ’’ تو اب سو جائو ! ‘‘ میں نے اسے اپنی گود میں لٹا لیا ۔ ’’ اب کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ہم اپنے گھر جارہے ہیں ۔‘‘ طلعت نے کچھ نہیں کہا اور آنکھیں بند کرلیں ۔ بانو بولیں ۔ ’’ پچاس گھنٹے کے قریب جاگنے سے حالت خراب ہو ہی جاتی ہے اور پھر جب انسان کو یہ احساس بھی ہو کہ وہ کسی کی قید میں ہے ۔ غیر یقینی کی حالت ہوتی ہے ۔ اسے کھانے پینے کے لیے دیا تو ہوگا ان لوگوں نے لیکن اس نے کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہوگا ۔‘‘ میں نے محبت سے طلعت کی پیشانی چوم لی ۔ اس وقت میں بھی جذباتی ہوگئی تھی ۔ ’’ بہت دہشت زدہ ہوگئے ہوں گے اب وہ اس کار سے ۔‘‘ بانونے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا ۔ ’’ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ ڈائری وہیں رہ گئی ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ مجھے خیال ہی نہیں رہا تھا کہ طلعت سے وہ ڈائری لینے کے لیے کہتی ۔ اسے ذرا سا پیچھے جانا پڑتا جہاں اس کم بخت کی لاش پڑی تھی۔ وہاں تک اسے کار سے کور تو دیا جاسکتا تھا ۔‘‘ ’’ مجھے خیال تھا اس کا ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ لیکن میں چاہتی ہوں کہ وہ ڈائری اس کے ساتھیوں کو مل جائے ، کار کی فائرنگ سے وہ سب تو نہیں مرے ہوں گے ۔‘‘ میں حیرت سے بولی ۔ ’’ آپ چاہتی تھیں کہ وہ ڈائری ان لوگوں کو مل جائے ؟ ‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ بانو کی یہ عجیب خواہش کیوں تھی ؟ کل کے اخبار 92 نیوزمیں ملاحظہ کریں