میں برق رفتاری سے روانہ ہوئی تھی جس کا سبب اپنی بہن کو جلد از جلد پالینے کی خواہش تھی۔ میں نے کچھ ہی راستہ طے کیا تھا کہ موبائل پر بانو کی کال آگئی۔ ’’جی بانو!‘‘ ’’تم گھر سے روانہ ہو چکی ہوگی۔!‘‘ ’’جی بانو ! بس ابھی نکلی ہوں۔‘‘ ’’میں کبھی شانگلہ ہلزنہیں گئی، بس انٹر نیٹ پر دیکھا ہے ، یا اس کا ذکر کئی بار سن چکی ہوں۔‘‘ ’’میں دو بار جا چکی ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ایک مرتبہ تو اس کے کچھ عرصے بعد گئی تھی جب سننے میں آیا تھا کہ طالبان شانگلہ ہلز پہنچ چکے ہیں اور اب اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔ پھر طلعت اور رفعت کو وہاں گھمانے لے گئی تھی۔ طلعت کو ضد ہوئی تھی کہ شانگلہ ہلز دیکھے گی۔ ‘‘ ’’ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ اب وہ وہیں ہے، خیر! میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں نے نیٹ پر دیکھا ہے کہ ہلز کے قریب کوئی کانٹی نینٹل ریسٹ ہائوس بھی ہے !‘‘ ’’جی ہاں۔ سیاحوں کے لیے وہاں کئی ہوٹل بنائے گئے ہیں، وہ شاید بٹا گرام کا علاقہ ہے یا اس کے قریب ہے ، لیکن آپ یہ سب کچھ کیوں پوچھ رہی ہیں۔‘‘ ’’ کانٹی نینٹل ریسٹ ہائوس کے سامنے سے گزر نا تم۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’رفتار بہت کم کر دینا ، جیسے ہی میں نظر آئوں ، کار میرے قریب کر دینا۔‘‘ ’’آپ میرے ساتھ چلیں گی؟‘‘ میں نے خوشی محسوس کی تھی ۔ ’’تو یہیں سے میرے ساتھ چلتیں!‘‘ میں نے دوبارہ کہا ۔ ’’شاید یہاں سے تمھاری نگرانی کی جا رہی ہو میں ابھی گھر سے روانہ ہو رہی ہوں دیکھوں گی کہ تمھارے تعاقب میں کوئی ہے یا نہیں! تم اپنی کار کی رفتار کبھی کم کرنا ، کبھی تیز کر دینا اگر کوئی تعاقب کررہا ہوگا تو مجھے علم ہو جائے گا۔ جب تم شانگلہ ہلز کے قریب پہنچو گی تو وہ لوگ مطمئن ہو جائیں گے اور امکان ہے کہ تمھارا تعاقب ختم کر دیا جائے گا ، میں تمھیں کانٹی نینٹل ریسٹ ہائوس کے سامنے مل جائوں گی اور اگر تمھارا تعاقب جاری رہا تو پھر تم ایک اور کام کرو گی۔‘‘ ’’وہ کام کیا ہوگا؟‘‘ ’’میں اس صورت میں تم سے رابطہ کرکے بتائوں گی تم اپنا سفر جاری رکھو۔‘‘ بانو نے رابطہ منقطع کردیا ۔وہ نہیں چاہتی ہوں گی کہ میں’’ دوسرے کام‘‘ کے بارے میں پھر سوال کروں ،میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ میرے پیچھے کیسے آئیں گی جبکہ اب اپنے گھر سے نکل رہی ہیں، یہ سوال احمقانہ ہوتا۔ بانو بہت برق رفتاری سے کار چلاتیں اور میرے پیچھے آجاتیں راستہ تو ایک ہی تھا۔ کچھ کاریں اور دیگر اقسام کی گاڑیاں میرے پیچھے آرہی تھیں میں نے سوچا کہ حویلیاں سے گزرنے کے بعد اندازہ لگائوں گی کہ میرا تعاقب کیا جارہا ہے یا نہیں ! بانو کی باتوں سے میرا ذہن الجھ گیا تھا ،انھوں نے ’’دوسرے کام ‘‘ کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی تھی ’’ دوسرا کام‘‘ نہ جانے کیا ہوتا۔ حویلیاں سے گزرنے کے بعد میں نے ایک مرتبہ اپنی کار کی رفتار اتنی کم کی کہ جو گاڑیاں میرے تعاقب میں نہ ہوں و ہ آگے نکل جائیں ،اور ایسا ہی ہوا۔ دو کاروں کے علاوہ کسی نے اپنی رفتار کم نہیں کی تھی ۔ تو کیا دو کاریں میرا تعاقب کررہی ہیں؟ میں نے سوچتے ہوئے کار کی رفتار بڑھا دی کار چلتی ہی رہی ایبٹ آباد گزر گیا ۔پھر مانسہرہ سے گزرتے ہی میں نے کار کی رفتار پھر کم کی اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ دو گاڑیوں کے علاوہ باقی گاڑیاں آگے نکل گئیں ۔ اب مجھے خیال آیا ۔دوسری کار میں بانو ہوسکتی تھیں لیکن وہ اس کار میں نہیں تھیں جیسی کار انھوں نے مجھے دی تھی، اس میں انھوں نے کوئی مصلحت سمجھی ہوگی، اس وقت میں نے اسکرین پر عقبی منظر دیکھا اور دیکھا بھی ’’ زوم‘‘کرکے ۔ اس میں مجھے اگلی سیٹوں پر دو غیر ملکی دکھائی دیے جن میں سے ایک ڈرائیونگ کررہا تھا۔ میں نے ’’ زوم‘‘بڑھا کر دوسری کار کی ڈرائیونگ سیٹ بھی دیکھی اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بانو ہی تھیں لیکن انھوں نے چہرے اور بالوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں کرلی تھیں کہ میں ہی انھیں پہچان سکتی تھی کوئی دوسرا اگر انھیں قریب سے اور بہت غور سے دیکھتا تبھی پہچان سکتا تھا۔ان کے برابر میں جو لڑکی بیٹھی ہوئی تھی وہ مجھ سے بہت چھوٹی تھی سولہ سترہ سال سے زیادہ کی نہیں ہوگی میں اسے جانتی تھی اس کا نام نرگس تھا ،وہ اس کم عمری میں بھی بہت ذہین تھی، وہ ان لڑکیوں میں سے ایک تھی جنھیں بانو پسند کرتی تھی، میں یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ میرے بعد نرگس ہی کا نمبر تھا ،اسے میں بھی پسند کرتی تھی، یہ میری سمجھ میں نہیں آسکا کہ بانو اسے اپنے ساتھ کیوں لائی تھیں! بٹگرام سے گزرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ تعاقب کرنے والی کار کہیں غائب ہوگئی تھی ۔ ان لوگوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں نے رفتار کم زیادہ کرکے اپنے تعاقب کا اندازہ لگایا تھایا شاید انھوں نے یہ بھی محسوس کرلیا ہو کہ ان کا بھی تعاقب کیا جارہا ہو۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے بانو کو غلط بتایا تھا، میری یاد داشت دھوکا دے گئی تھی، کانٹی نینٹل گیسٹ ہائوس اور دوسرے ہوٹل بٹگرام یا اس کے آس پاس نہیں ،کافی آگے تھے ۔ابھی تو مجھے سیدا نو ڈیرہ سے بھی گزرنا تھا۔ اس کے بعد شانگلہ کا علاقہ آتا۔ بانو نے بھی سمجھ لیا گا کہ میری یادداشت نے مجھے دھوکا دیا تھا، ان کی کار تیز رفتاری سے آگے نکل گئی ۔ جب میں سیدا نو ڈیرہ سے آگے نکل کر اس مقام پر پہنچی جہاں ہوٹل بنے ہوئے تھے تو میں نے کانٹی نینٹل گیسٹ ہائوس کے سامنے کار کی رفتار کم کی ۔مجھے بانو ایک جگہ کھڑی دکھائی دے گئیں۔ میں نے ان کے قریب کار روکی لیکن انجن بند نہیں کیا ۔جیسے ہی بانو میری کار میں ڈرائیونگ سیٹ کے برابر میں آبیٹھیں ،میں کار حرکت میں لے آئی۔ ’’تعاقب کرنیوالے غائب ہوگئے تھے ۔‘‘وہ بولیں ۔ ’’جی ہاں ۔‘‘ میں نے کہا ، پھر پوچھا ’’نرگس کہاں ہے ؟اسے کیوں لائی تھیں ؟‘‘ ’’اگر تعاقب جاری رہتا تو یہاں میری بہ جائے وہی تمھیں ملتی ۔میں سامنے آنے کا خطرہ مول نہیں لیتی ۔‘‘ ’’لیکن مقصد؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’مقصد بھی بتادوں گی ۔اب ہم شانگلہ میں داخل ہورہے ہیں نا!‘‘ ’’آپ دیکھ ہی رہی ہیں ہماری ایک جانب بلند و بالا سر سبز پہاڑیاں ہیں، مجھے اس سڑک پر ایک جگہ کار روکنی ہے وہیں سے اس مقام تک پہنچا جاسکتا ہے جس کا نقشے میں دائرہ بنایا گیا تھا۔‘‘ ’’راستے میں زیادہ اونچی پہاڑیاں؟‘‘بانو نے دانستہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑا ۔ ’’نہیں ہیں۔‘‘میں نے جواب دیا ۔’’مجھے کچھ اوپر جانے کے بعد بس ایک چھوٹا سا ٹیلہ چڑھنا اور اس کی دوسری طرف اترنا ہوگا ،مجھے کسی ایسی جگہ نہیں بلایا جاسکتا تھا کہ مجھے پہاڑیاں چڑھنا اور اترنا ہوتیں۔‘‘ میں نے کار کی رفتار کم کرنا شروع کی اور پھر ایک جگہ روک دی ۔کار مجھے یہیں چھوڑ کر جانا تھا، کار اس مقام تک نہیں جاسکتی تھی جو نقشے میں دکھایا گیا تھا۔ بانو نے صدف کے ساتھ آنا کیوں ضروری سمجھا؟ کل کے روزنامہ 92میں ملاحظہ فرمایئے۔