میں نے موبائل بند کرکے بانو کی طرف دیکھا جن کا چہرہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔ ’’ ہمیں ان لوگوں کا یہ چیلنج قبول کرنا پڑے گا ۔‘‘ میں بولی ۔ ’’ یہ لوگ اس سلسلے میں ضرور طالبان سے مدد لیں گے ۔ کوئی خودکش بم بار انھیں مل جائے گا ۔ صرف وہی ہمارے دشمنوں کا ایک ایساہتھیار ہے جس کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں ‘ لیکن یہ اسی صورت میں کام یاب ہوتا ہے جب لوگ بے خبر ہوں ۔ اگر علم ہو تو اسے بھی ناکام بنایا جاسکتا ہے اور یہ ہمیںخبردار کررہا ہے ۔ ایس آئی ایس پگارا ہائوس کے گرد ایسا حصار قائم کرسکتی ہے کہ وہاں کسی خودکش بم بار کا سایہ بھی نہ پڑ سکے ۔ ‘‘ میں جوش میں بولتی ہی چلی گئی تھی ۔ ’’ ہاں ۔ ‘‘بانو مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے بھی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ ’’ تو اس کا فون آئے تو میں اس سے کہہ دوں گی کہ ڈائری اسے نہیں ملے گی اور وہ پگارا صاحب کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ۔ ‘‘ ’’ کہہ سکتی ہو!‘‘ بانو سوچ میں ڈوبی رہیں ۔’’ لیکن اس کے بعد وہ ہمیں خبردار کئے بغیر کوئی ایسی حرکت کرے گا‘ کسی اور سیاست دان کو نقصان پہنچائے گا جس کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا ۔ اس وقت ہمارے ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ ایسی کوئی واردات کسی بڑے خلفشار کا سبب بن سکتی ہے ۔ اس واردات کے بعد وہ ہمیں پھر فون کرے گا کہ اگر اب بھی اسے ڈائری نہ دی گئی تو وہ پھر ایسی ہی واردات کروائے گا ۔ ‘‘ میں ان کی باتوں سے الجھ گئی ۔ ایک طرف انھوں نے مجھ سے اتفاق کیا تھا اور دوسری طرف اس قسم کی باتوں سے ظاہر ہورہا تھا کہ انھیں مجھ سے اتفاق نہیں ہے ۔ ’’ در اصل آپ کے ذہن میں کیا ہے بانو!‘‘ آخر میں یہ پوچھنے پر مجبور ہوگئی ۔ بانو نے کہا ۔’’ طالبان تو ایک خطرہ ہیں ہی ‘ لیکن موساد او ر فری میسن کی مدد سے وہ بہت زیادہ خطرناک ہوجائیں گے ۔ مجھے اندیشہ تو ہے کہ انتخابات کے قریب یہ لوگ ایک بہت بڑا خلفشار پیدا کریں گے لیکن یہ اس وقت دیکھا جائے گا ۔ فی الحال تو اسے ناکام بنانا ہی ہوگا ۔ ‘‘ ’’ میں اب بھی نہیں سمجھی کہ آپ کے دماغ میں کیا ہے ۔ ‘‘ ’’ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ڈائری تو انھیں دینی ہی پڑے گی ۔ ‘‘ میں چونک گئی ۔’’ یعنی شکست مان لیں ؟‘‘ ’’ جنگ میں کسی وقت پسپائی کا مطلب شکست نہیں ہوتا۔ ‘‘ ’’ وہ ڈائری ہمارے ملک کے لیے بہت اہم ہے ۔ ‘‘ ’’ میں کہہ چکی ہوں کہ کسی وقت پسپائی اختیار کرنی پڑتی ہے ۔ ‘‘ ’’ تو میں اس سے کہہ دوں کہ ہم اسے ڈائری دینے کے لیے تیار ہیں ؟‘‘ ’’ ہاں‘لیکن مشروط طور پر ۔‘‘ ’’ میں سمجھی نہیں ۔ شرط بھی لگائی جائے گی ؟‘‘ ’’ ہاں ۔اب اس کا فون آئے تو مجھ سے بات کرانا ۔ وہ لوگ واقف تو ہوچکے ہیں کہ تمھارے ساتھ میں بھی ہوں ۔ شاید وہ میرا نام بھی معلوم کرچکے ہوں ۔ ‘‘ ’’ آپ مجھے کیوں نہیں بتاتیں کہ کیا بات کرنی ہے ؟‘‘ ’’ وہ نہ جانے کس قسم کے جوابات دے اور تم اس وقت کوئی فیصلہ نہ کرسکو کہ کیا کہنا چاہیے ! ایسی صورت میں کام خراب ہوسکتا ہے ۔‘‘ ان کا جواز معقول تھا ۔ اگر میں اس معاملے کو ہینڈل کررہی ہوتی تو اور بات ہوتی لیکن اب سب کچھ بانو نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا ۔ بانو بولیں ۔’’ ہم نے اس طالبانی مرکز کو تباہ کرواکے ان لوگوں کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے لیکن ایسا نہیں کہ ان کی اور تربیت گاہیں نہ ہوں ۔‘‘ ’’ وہ تو افغانستان کی حدود میں بھی ہیں ۔ ‘‘ ’’ اور وہ معاملہ حکومت کا ہے کہ وہ اسے کیسے ختم کرتی ہے ۔‘‘ ’’ آپریشن ضرب عضب کا کام تو جاری ہے لیکن جنرل راحیل کی راہ میں حکومت نے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ڈالی ہے کہ پنجاب کو نیشنل ایکشن پلان کی زد پر آنے سے بچالیا ہے ۔ شہباز شریف نے رینجرز کو پنجاب میں کارروائی نہیں کرنے دی ورنہ صرف طالبان کے سہولت کار ہی نہیں ‘ دوسرے دہشت گرد بھی مارے جاتے ۔ رانا ثناء اللہ سمیت بہت سی گرفتاریاں بھی عمل میں آچکی ہوتیں ۔‘‘ ’’ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ ایک بڑا سہولت کار تو وہاں ایس آئی ایس کی ناک کے نیچے بیٹھا ہے ۔ ‘‘ ’’ وہ مولوی ؟‘‘ ’’ ہاں ‘ اسی قسم کے لوگ نہ صرف طالبان کے بلکہ نواز شریف کے بھی سہولت کار ہیں ۔ پاکستان کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ نواز حکومت کا خاتمہ ہو ۔ ‘‘ ’’ اگر عمران خان آگیا تو دیکھتے ہیں کہ اس کی حکومت کیا کرتی ہے ۔‘‘ ’’ بہت چیلنجز ہوں گے اس کے لیے ۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بیورو کریسی ہوگی ۔ ہاں اگر اس نے نیب اور ایف بی آر کو ٹھیک کردیا تو باقی ادارے آسانی سے ٹھیک ہوجائیں گے ۔‘‘ ’’ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں لیکن اس وقت یہ کیا موضوع چھڑ گیا ! ہمیں پگارا صاحب کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘ ’’ اس کے فون کا انتظار تو کرنا ہی ہے!‘‘ آخر ٹھیک ایک گھنٹے بعد اس کا فون آگیا لیکن اس کا نمبر دوسرا تھا ۔ میں نے موبائل بانو کو دے دیا ۔ ’’ ہمیں ایک شرط پر تمھارا مطالبہ منظور ہے ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ تم؟‘‘ ’’ ہاں میں اس کی ساتھی بول رہی ہوں ۔‘‘ ’’ بانو ؟‘‘ وہ لوگ نام جان چکے تھے ۔ ’’ ہاں۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ وہ ڈائری ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہے ۔ہم تمہیں دے دیں گے ۔ بس ضد میں ہم نے تمہیں ناکام کیا ہے اور اب بھی ہمیں تمھارا چیلنج منظور ہے ۔ تم پگارا صاحب کا بال بھی بہ یکا نہیں کرسکتے ۔ جو کچھ کرسکتے ہو‘ کردکھائو۔‘‘ ’’ ابھی تم نے کہا تھا کہ ڈائری دینے کے لیے تیار ہو؟‘‘ ’’ لیکن شرط یہی ہے کہ تم کچھ کر سکتے ہو تو کرکے دکھائو۔جب تم ناکام ہوجائو گے تو فون کرنا ۔ ڈائری تمہیں دے دی جائے گی ۔ میں کہہ چکی ہوں کہ وہ ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہے ۔ ‘‘ ’’ جب ڈائری تمھارے کام کی نہیں ہے تو تم اپنے سیاست داں کو کیوں خطرے میں ڈالتی ہو؟‘‘ ’’ یہ دکھانے کے لیے کہ تم ہمیں چیلنج کرنا چھوڑ دو ۔ تم لوگوں کو ہر بار منہ کی کھانی پڑے گی ۔ ‘‘ ’’ اچھا !‘‘ غرانے کے سے انداز میں کہا گیا ۔‘‘ تو پھر دیکھنا کہ اب سورج طلوع ہوگا تو کیا تماشا دیکھے گا ۔ ‘‘ اور پھر رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ میں نے بانو کی باتیں بڑی بے چینی سے سنی تھیں اور کیوں کہ انھوں نے اسپیکر کھول دیا تھا اس لیے دوسری طرف کی آواز بھی سنتی رہی تھی ۔میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ جب بانو نے ڈائری دینے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو پگارا صاحب کے لیے خطرات مول لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ بانو نے یہ خطرہ کیوں مول لیا تھا؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!