اس ملاقات کے بعد میں ایس آئی ایس کے دفتر سے روانہ ہوئی ۔ راستے سے میں نے موبائل پر بانو سے پوچھا ۔ ’’ آپ گھر پر ہیں؟‘‘ ’’ نہیں ۔‘‘ جواب آیا ۔ ’’ کیوں ؟کیا تم آرہی ہو؟‘‘ ’’ جب آپ گھر پر نہیں تو میں بعد میں آجائوں گی ۔‘‘ ’’ تم کتنی دیر میں پہنچو گی ؟‘‘ ’’ بیس منٹ میں !‘‘ ’’ آجائو ۔ میں راستے ہی میں ہوں ۔ گھر ہی جارہی ہوں ۔ پندرہ منٹ میں پہنچ جائوں گی ۔‘‘ ’’ بس تو میں آرہی ہوں ۔‘‘ میں نے رابطہ منقطع کردیا ۔ چولستان جانے کی بات میں بانو کے علم میں لانا چاہتی تھی ۔ مجھے اب لاشعوری طور پر نہیں ، شعوری طور پر محسوس ہونے لگا تھا کہ میں ایس آئی ایس میں کمانڈر کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود بانو کی اسسٹنٹ ہوں ، ہر معاملے میں ان کی مدد کی خواہاں ہوں ۔ دوسری طرف میری یہ سوچ بھی تھی کہ بانو ہی بگ پرسن ہیں لہٰذا میں ان کی اسسٹنٹ تو ہوں! بانو کے گھر پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں میرے موبائل پر کیپٹن کی کال آ گئی۔ شاید ہاسپٹل سے کوئی نئی اطلاع! میں نے سوچتے ہوئے کال ریسیو کی۔ ’’ہاں کیپٹن! کوئی نئی بات؟ تم لوگوں کی ایک رپورٹ تو مجھے مسٹر داراب سے مل گئی ہے۔‘‘ جو رپورٹ میں آپ کو دینے والا ہوں‘ وہ میں نے مسٹر داراب کو نہیں دی۔مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ آفس آکر کہیں گئی ہیں۔‘‘ ’’کوئی اہم بات؟‘‘ اس کا امکان تو ہے کہ شاید یہ آپ کے لیے اہم ہو!‘‘ ’’تو بتائو جلدی!‘‘ ’’بالکل صبح ڈاکٹر نے ہمیں بتایا تھا کہ برائن کو سوتے میں بڑبڑانے کی عادت ہے۔ مجھے خیال آیا کہ سوتے میں آدمی عموماً اپنے ہی بارے میں باتیں کرتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ اب وہ جب بھی سوئے مجھے اطلاع بھی دی جائے اور اس کی اجازت بھی کہ میں اس وقت اس کے قریب رہوں۔ میں نے اس سے یہ بھی پوچھا کہ اسے برائن کی بڑ براہٹ کا علم کیسے ہوا۔ اس نے بتایا کہ نرس نے بتایا تھا جو برائن کے کمرے میں ڈیوٹی پر ہے۔ اب چونکہ برائن جاگ چکا تھا اور توقع نہیں تھی کہ وہ جلد ہی پھر سو جائے گا۔ جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے ڈاکٹر سے کہاکہ میں اس نرس سے مل کر اس کی بڑبڑاہٹ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ میں نے بڑے تحمل سے کیپٹن عارف کی اتنی باتیں سنی تھیں‘ لیکن اب بول پڑی۔’’نرس نے تمہیں کیا بتایا؟‘‘ ’’صرف دو تین لفظ…تلور کا شکار…خلیجی ریاست …‘‘ میرا خیال فوراً بگ پرسن کی ہدایت کی طرف گیا۔ ’’بس؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’جی کمانڈر! ’’اوکے!‘‘میں نے کہا اور رابطہ منقطع کر دیا۔ اس کا علم مجھے پہلے سے تھا کہ عرب کے شہزادوں کو تلور کے شکار کا بہت شوق تھا جس کے لیے وہ پاکستان آیا کرتے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ نرس کچھ بھول بھی گئی ہو گی۔ وہ کچھ اور بھی بڑ بڑایا ہو گا جس کی خبر بگ پرسن کو مل گئی ہو گی۔ اس کے ذرائع تو میرے خیال کے مطابق لامحدود تھے۔ برائن نے شاید فری میسن لاج کے نام کے علاوہ ریسٹ ہائوس کی بات بھی کی ہو۔ اسی لیے بگ پرسن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو گا کہ فری میسن لاج وہیں کے کسی ریسٹ ہائوس میں قائم کی گئی ہو گی۔ بانو حسب معمول اپنی خواب گاہ میں میری منتظر تھیں۔ میں نے انھیں پہلے تو کیپٹن عارف سے ملنے والی اطلاع کے بارے میں بتایا‘ پھر کہا۔’’لیکن اس سے پہلے مجھے مسٹر داراب کے ذریعے بگ پرسن کی ہدایت مل گئی تھی کہ میں چولستان پہنچوں۔ اس کا مطلب ہے کہ انھیں کیپٹن عارف سے پہلے ہی اس کا علم ہو گیا تھا۔‘‘ ’’یہ اندازہ تو مجھے ہے۔‘‘ بانو نے کہا۔‘‘ بگ پرسن کے ذرائع معلومات کئی ہیں۔ وہ صرف اپنے محکمے کے کارکنان کی محتاج نہیں ہے‘‘ میں نے کچھ جھنجلا کر کہا۔’’یہ کہئے کہ آپ کی معلومات کے ذرائع ایس آئی ایس کے لوگوں کے علاوہ بھی کچھ ہیں۔‘‘ ’’ہاں یہ تو ہے کہ میرے ذرائع کچھ اور بھی ہیں۔‘‘ ’’اور یہ بھی کہیے کہ دراصل بگ پرسن آپ ہی ہیں!‘‘ بانو ہنس پڑیں۔‘‘ چلو یہ سمجھ لو۔‘‘ ’’آپ نے اس طرح اعتراف کیا ہے جیسے مذاقاً کہہ دیا ہو۔‘‘ ’’ان باتوں کو چھوڑو صدف!…یہ بتائو کہ تم چولستان کب روانہ ہو رہی ہو؟‘‘ بانو نے بات ٹال دی تھی۔ میں کھسیا کر رہ گئی۔ انھوں نے مزید کہا۔’’اس سلسلے میں کیا تیاری کرو گی؟‘‘ ’’ٹال دی بات۔‘‘ میں بڑبڑائی۔ ’’ََچولستان کا وہ صحرا بڑا تکلیف دہ ہو جاتا ہے اگر مکمل تیاری نہ کی جائے۔ جب تیز ہوا چلتی ہے تو ذرات اڑ کر جسم سے تیر کی طرح ٹکراتے ہیں اس لیے لباس موٹاہونا چاہیے۔ معمولی ہوا میں بھی ذرات اڑتے رہتے ہیں اس لیے ایسا چشمہ بھی ہونا چاہیے جو آنکھوں کو پوری طرح ڈھک لے۔ اسی طرح سر کے بچائو کے لیے بھی کچھ ہونا چاہیے ورنہ سارے بال ذرات سے بھر جائیں گے۔ پانی بھی زیادہ مقدار میں ساتھ ہونا چاہیے۔ ‘‘ بانو مجھے یہ سب کچھ بتا رہی تھیں کہ میرے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ ایک بار پھر اسکرین پر ایک اجنبی نمبر دکھائی دیا۔ ’’انہی میں سے کوئی خبیث ہے۔‘‘ میں نے بانو سے کہا‘ پھر موبائل پر بات کرنے سے پہلے اسپیکر کھول دیا تاکہ بانو بھی سن کیں۔ ’’ہیلو!‘‘ میں نے دانت پر دانت جما کر کہا۔ ’’میں اسی کا ساتھی ہوں جسے تم شانگلہ ہل پر ختم کر چکی ہو۔‘‘ میں نے جو آواز سنی‘ وہ غصے میں بھری ہوئی تھی۔‘‘ اس کے علاوہ بھی ہمارے کئی ساتھی…‘‘ ’’جہنم رسید ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔‘‘ اور تم سب اسی قابل ہو جو میرے وطن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہو۔‘‘ جواب میں غراتی ہوئی آواز آئی۔‘‘ ہمیں ہر قیمت پر وہ ڈائری چاہیے۔جوڈائری ہمیں دی گئی ہے ، اس کی تحریر غائب ہو چکی ہے، وہ جعلی تھی۔‘‘ ’’اصل تمہیں کسی قیمت پر بھی نہیں ملے گی۔‘‘ ’’توکل تمھارے ایک سیاست داں کی خیر نہیں!‘‘ میں اس دھمکی پر کچھ پریشان ہو گئی۔‘‘ کس کی؟‘‘ ’’پیر پگارا ہمارے لیے ایک آسان ہدف ہو گا۔‘‘ ’’تم کچھ نہیں کر سکو گے۔‘‘ میں نے کہا‘ لیکن میرا دماغ چکرا گیا تھا۔ ’’ڈائری یا پیر پگارا۔‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔‘‘ ایک گھنٹے بعد تمھارا جواب چاہیے۔ اگر اس بار بھی نقلی ڈائری دی گئی تو جو کچھ کہا گیا ہے‘ اس سے بہت زیادہ بھی کچھ ہو جائے گا۔‘‘ اور پھر سلسلسہ منقطع کر دیا گیا! ایک گھنٹے بعد صدف نے کیا جواب دیا؟ کل کے روزنامہ 92میں ملاحظہ کیجیے! ٭٭