میں گھر پہنچی ۔ والدہ بہ دستورخواب آور دوا کے زیر اثر تھیں ۔ ڈیڈی شاید وھیل چیئر پر بیٹھے سوچ میں غرق ہوں گے لیکن دروازہ کھلنے پروہ میری طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔ رفعت وہاں نہیں تھی ۔ میں نے ڈیڈی سے اس کے بارے میں پوچھا ۔ ڈیڈی نے جواب دیا ۔ ’’ میں نے اسے کھانا کھلا کر اس کے کمرے میں سلا دیا ہے ۔ اسے بھی خواب آور دوا کی آدھی گولی دی تھی ۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے لیکن حالات نے مجبور کردیا ہے ۔ تم بتائو ،کہاں گئی تھیں؟ کیا بندوبست کررہی ہو؟‘‘ میں نے انھیں تمام حالات سے آگاہ کردیا ۔ ’’ ہوں ۔ ‘‘ ڈیڈی نے سر ہلایا ۔ ’’ تو طلعت کل تک ان لوگوں کے قبضے میں رہے گی ؟‘‘ ’’ جی ڈیڈی !‘‘ میں نے نظریں جھکالیں ۔ ’’ طلعت کے لیے میں بھی اتنی ہی پریشان ہوں جتنے پریشان آپ نظر آرہے ہیں ۔‘‘ ’’ ظاہر ہے صدف!میں اندازہ کرسکتا ہوں تمھاری پریشانی کا۔ آخر وہ تمھاری بہن ہے ۔‘‘ میں ممی کی طرف دیکھنے لگی ۔ ڈیڈی بولے ۔’’ تمھارا اس طرح شانگلہ جانا خطرناک ہوسکتا ہے ۔ کیا میں اس سلسلے میں آئی ایس آئی کے چیف سے بات کروں ؟‘‘ ’’ نہیں ڈیڈی !‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ میں نے مسٹر داراب کو فون پر حالات سے آگاہ کردیا ہے ۔ بگ پرسن کو اطلاع مل گئی ہوگی ۔ میں انتظار کررہی ہوں ۔ان کی طرف سے کسی قسم کی ہدایت مجھے مسٹر داراب کے ذریعے ملنی تو چاہیے ۔‘‘ ’’ ہاں ،اصولاً ملنا تو چاہیے ! بگ پرسن بہت ذمے دار ہے ۔‘‘ ’’ ان کا پسِ پردہ رہنا عجیب لگتا ہے ۔ جاسوسی نادلوں کی سی بات ۔!‘‘ ’’ صرف جاسوسی نادلوں کی بات نہیں !دو ملکوں سے تو میں واقف ہوں ۔ ان کے بعض اداروں کے سربراہ پوشیدہ رہتے ہیں ۔‘‘ میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ وہ میں نے اپنے پرس سے نکالا ۔ وہ مسٹر داراب ہی کی کال تھی ‘ میں نے ریسیو کی ۔ ’’ جی مسٹر داراب ؟‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ بگ پرسن نے ہدایت کی ہے کہ شانگلہ تو تم جائو لیکن جب نقشہ مل جائے تو اس کی تصویر کھینچ کر مجھے واٹس ایپ کردینا ۔ وہ میں بگ پرسن کو بھیج دوں گا ۔ ‘‘ اسی قسم کی بات مجھ سے بانو نے بھی کہی تھی ۔ ’’ ٹھیک ہے مسٹر داراب !‘‘ میں نے کہا ۔ دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ ’’ داراب کی کال تھی ؟‘‘ ڈیڈی نے پوچھا ۔ ’’ جی ۔ ‘‘ میں نے کہا اور انھیں بتادیا کہ بگ پرسن کی کیاہدایت ملی ہے۔ ڈیڈی نے سر ہلایا ‘ پھر کہا ۔ ’’ کھانا کھالو۔خاصی رات ہوگئی ہے ۔‘‘ ’’ بھوک مرگئی ہے ڈیڈی !‘‘ ’’ اس قسم کے حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جب کھانے بیٹھو تو کھالیا جاتا ہے ،یا کم کھایاجاتا ہے ۔بھوکا تو نہیں رہنا چاہیے نا !‘‘ ’’ آپ بھی کھالیں ۔‘‘ ’’ میں رفعت کے ساتھ کھاچکا ہوں ورنہ وہ بھی نہیں کھاتی ۔‘‘ میں نے ڈیڈی کی بات مان لی ۔ جتنا کھایا جاسکا ،کھالیا ، پھر اپنے کمرے میں جالیٹی اور موبائل پر بانو کو بگ پرسن کی ہدایت سے آگاہ کیا ۔ ’’ ٹھیک ہے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اب سونے کی کوشش کرو۔ کل تمھیں تازہ دم ہونا چاہیے۔‘‘ میری نیند بالکل اڑی ہوئی تھی لیکن رات گئے آنکھ لگ ہی گئی ۔ دوسرے دن میں دفتر نہیں گئی ۔ دس بجے کے قریب ایک ملازمہ نے آکر مجھے ایک لفافہ دیا اور کہا ۔’’ ایک کار سے یہ لفافہ پھاٹک کے اندر پھینکا گیا تھا ۔ اس پر آپ کا نام لکھا ہے ۔‘‘ میں نے ملازمہ سے کسی قسم کا سوال کیے بغیر اسے رخصت کردیا اور لفافہ کھولا۔ میری توقع کے مطابق اس میں شانگلہ کا نقشہ تھا ،جو خاصے بڑے کاغذ پر بنایا گیا تھا ۔ اس میں ’’ بٹگرام‘‘ سے لے کر شانگلہ تک نشان دہی کی گئی تھی اور پھر شانگلہ کی ایک بلند جگہ سرخ دائرہ بنایا گیا تھا۔ دیسی ٹائپ میں لکھا تھا ’’اسٹاپ‘‘ مجھے وہ دائرہ اور ’’اسٹاپ‘‘ کا لفظ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی ۔ رات کو میں یہ سوچتی ہوئی سوئی تھی کہ میری کار سے وہ لوگ خوف زدہ ہو چکے تھے اس لیے کوئی گڑ بڑ کرنے سے گریز کریں گے لیکن جس جگہ دائرہ بنایا گیا تھا وہاں تک کار جا ہی نہیں سکتی تھی۔ میں نے اس نقشے کی تصویر بنا کر بانو اور مسٹر داراب کو واٹس ایپ کردی۔ پھر میں بانو سے موبائل پر رابطہ کرنے ہی والی تھی کہ اس کی گھنٹی بج اٹھی۔ میں نے اسکرین پر ایک اجنبی نمبر دکھا اور سمجھ گئی کہ کال کس کی ہوگی۔ ’’مجھے نقشہ مل چکاہے۔‘‘ میں نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا۔ ’’ویری گڈ!‘‘ وہ ہنسا۔’’تو تم سمجھ گئی تھیں کہ یہ میری کال ہے۔‘‘ ’’میرے موبائل پر اس وقت کوئی اجنبی نمبر نہیں آسکتا۔‘‘ ’’اسلام آباد سے شانگلہ تک دو گھنٹے سے زیادہ کا راستہ ہے ۔‘‘وہ بولا۔’’ تو کب روانہ ہوگی؟‘‘ ’’ایک گھنٹہ تو لگ جائے گا‘‘ ’’تمھیں کچھ دور پیدل بھی چلنا پڑے گا۔ اس میں آدھا گھنٹہ لگے لگا۔ گیارہ بجے روانہ ہوگی تودوڈھائی بجے اس پوائنٹ پر پہنچ جائوگی۔‘‘اس نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ میں نے مسٹر داراب اور بانو کو اطلاع دی۔ ’’ٹھیک ہے ۔‘‘بانو نے کہا ۔’’تم گیارہ بجے روانہ ہو جائو‘‘ ’’ڈائری لے کر؟‘‘ ’’ظاہر ہے ۔ وہ میں نے تمھیں اسی لیے دی ہے ‘‘ میں نے کچھ جھنجھلا کر سلسلہ منقطع کر دیا۔ یہ مجھے بہت گراں گزر رہا تھا کہ کاف مین کی ڈائری ہاتھ سے نکل جاتی۔ ممی ، ڈیڈی اور رفعت جاگ چکے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ ہی ناشتا کیا تھا۔ میں نے روانگی کی تیاری کی اور پھر اس خواب گاہ میں پہنچی جوممی اور ڈیڈی کی تھی۔ ممی کا چہرہ بہ دستور اترا ہواتھا۔ رفعت نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا۔’’ آپا کب تک آئیں گی باجی؟‘‘ ’’آجائیںگی ،آج ہی آجائیںگی۔‘‘ میں نے جبرا ًمسکراتے ہوئے کہا اور پھر ممی کے گلے میں بانہیں ڈال کر بو لی ’’ میرے لیے دعا کیجئے گا ممی ،میںطلعت کو لینے جا رہی ہوں،شام تک آجائوں گی اسے لے کر !‘‘ ممی کے ہونٹ کانپنے لگے ، پھر آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں، پھر گھٹی گھٹی سی آواز میں بولیں۔ ’’وہ لوگ .....تمھارے بھی تو دشمن ہیں!‘‘ ’’وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔‘‘ پھر اس سے پہلے کہ ممی کچھ اور کہتیںیا ان کے آنسوئوں میں اضافہ ہوتا، میں نے ڈیڈی سے اجازت لی اور نکل آئی۔ نکلتے نکلتے میں نے ڈیڈی کی آواز سنی’’تم دیکھنا، میری بہادر بیٹی طلعت کو لے کر ہی آئے گی۔ ‘‘ یہ بات انھوں نے ممی سے کہی ہوگی۔ میں کار میں بیٹھ کر شانگلہ روانہ ہو گئی۔ شانگلہ میں کیا کوئی ہنگامہ ہوا؟ کل کے روزنامہ 92نیوزمیں پڑھیں!