کار رکتے ہی بانو نے کہا ۔’’اب تم میری سیٹ پر آجائو‘ڈرائیونگ اب میں سنبھالوں گی۔ ‘‘ ’’مجھے یہیں سے جانا ہوگا بانو! کار نہ تو اوپر جاسکتی ہے اور نہ تو ٹیلہ عبو ر کرسکتی ہے ۔‘‘ ’’دیکھتی رہو ،سیٹ تبدیل کرو، یہ کار نا ہم وار راستوں پر بھی جیپ کی طرح چل سکتی ہے اور ٹیلہ بھی عبور کرسکتی ہے۔ ابھی اس کی کچھ اور خصوصیات بھی بتانی ہیں تمھیں بلکہ ان کی تربیت دینی ہوگی ۔صرف بتانے سے کام نہیں چلے گا۔‘‘ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ میں نے سیٹ تبدیل کی اور بولی ’’اگر آپ کی بہ جائے نرگس ہوتی؟‘‘ ’’ایسے ہی ایک موقع پر وہ میرے ساتھ تھی جب میں نے کار سے یہ کام لیا اور وہ بہ ضد ہو گئی کہ میں اسے اس کی تربیت دوں۔‘‘ بانو نے انجن اسٹارٹ کر دیا جو میں نے بند کر دیا تھا۔ ’’وہ مجھ سے بھی بازی لے گئی!‘‘ میں شاید جل گئی تھی۔ ’’ صرف اسی معاملے میں۔‘‘ بانو نے کار ریورس گیئر میں کچھ موڑتے ہوئے جواب دیا۔‘‘ تمھیں جو کچھ بتا چکی ہوں‘ وہ اس سے بے خبر ہے۔ اسے وہ سب کچھ بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔ اسے میں نے ایسی کوئی کار نہیں دی ہے اور دینے کی ضرورت بھی نہیں۔‘‘ بانو نے کار کچھ موڑنے کے بعد اسٹیرنگ اس طرف گھمایا یا جدھر بلندی تھی۔ پھر کار آگے بڑھائی۔ راستہ سرسبز ضرور تھا لیکن ہم وار نہیں تھا۔ کار ادھر اُدھر اچھلتی ہوئی اوپر چڑھنے لگی۔ ’’اس نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا کہ اکیلی آئوں۔‘‘ ’’اسے کیا معلوم کہ میں بھی ہوں۔ تم ہی کار سے نکلنا ۔‘‘ ’’اگر آپ کو کار میں آتے دیکھ لیا گیا ہو تو؟ میرا تعاقب تو کیا گیا تھا۔‘‘ ’’مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔ اطلاع مل چکی ہے مجھے!‘‘ ’’کس سے اطلاع ملی ہے؟ کب؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’یہ سوال ایک موقع پر تم مجھ سے طالبانی مرکز میں بھی کر چکی ہو۔ سونیا جب ہاسپٹل میں داخل ہوئی تھی‘ اس وقت بھی ایسا ایک موقع آیا تھا۔ شاید دو ایک اور مواقع پر بھی!… دھیرج رکھو صدف!…تمھیں کسی وقت میرے اس ذریعے کا بھی علم ہو جائے گا۔‘‘ کار اب اس ٹیلے کے قریب تھی جس کی دوسری جانب مجھے بلایا گیا تھا۔ ’’اب ذرا سنبھل کر!‘‘ بانو پھر بولیں۔’’ بیلٹ چیک کرلو‘کار فضا میں جمپ لے کر ٹیلہ عبور کرے گی۔‘‘ ’’یہ…یہ بھی…یہ بھی ممکن ہے؟‘‘ میری آواز میں لکنت آ گئی۔ ’’ایک بار تم اس کا مظاہرہ دیکھ چکی ہو۔‘‘ ’’وہ تو ایک کار تھی۔ یہ ٹیلہ اس سے خاصا زیادہ اونچا ہے۔‘‘ بانو نے کوئی جواب دیے بغیر کار کی رفتار بڑھائی اور ہلکے سے دھچکے کے ساتھ بلند ہوئی اور ٹیلے کے اوپر سے گویا پرواز کرتی ہوئی دوسری طرف پہنچ گئی۔ اتری وہ اسی طرح تھی کہ کوئی جھٹکا نہیں لگا تھا۔ سامنے اب سپاٹ لیکن سر سبز قطعہ اراضی تھا جس پر کہیں چھوٹے چھوٹے پودے بھی تھے۔ کار رکتے ہی پودے کی آڑ سے ایک قد آور سفید فام سامنے آ گیا۔ وہ طلعت کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ ’’اترو ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ لیکن کھڑکی کے قریب رہنا۔‘‘ میں کار سے اتری۔ بانو نے اس طرف کی کھڑکی کھول دی۔ قد آور اور سفید فام کچھ فاصلے پر رک گیا۔ ’’باجی!؟ طلعت نے مجھے روہانسی آواز میں پکارا۔ قد آور سفید فام نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔’’تمھاری کار میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ اتنا اونچا ٹیلہ عبور کر آئی؟‘‘ ’’تم چاہتے تھے کہ میں اپنی اس کار میں یہاں نہ آئوں اور ڈائری لینے کے بعد تم طلعت کو تو شاید چھوڑ دیتے‘ یا شاید نہ چھوڑتے لیکن مجھے ضرور اغواکرتے ۔ تم لوگوں کی ایک کوشش تو ناکام ہو چکی ہے مجھے اغواکرنے کی!‘‘ سفید فام نے میری باتیں نظر انداز کر دیں اور غرانے کے سے انداز میں بولا۔’’ڈائری کہاں ہے؟‘‘ میں نے کھڑکی سے کار میں ہاتھ ڈال کر ڈائری نکال لی۔ ’’اب یہ میری طرف اچھال دو یا قریب آ کر دے دو۔‘‘ وہ پھر بولا۔ ’’تمھارے قریب آنے کی حماقت تو میں نہیں کر سکتی۔ مجھے نہیں معلوم تمھاری نیت کیا ہے۔‘‘ بانو آہستہ سے بولیں۔’’ اس سے کہو‘ تم یہ ڈائری یہیں زمین پر رکھ کر کار میں تھوڑا سا پیچھے ہٹ جائوگی۔ وہ آگے آ کر ڈائری اٹھائے‘ اسے دیکھ لے اور پھر طلعت کو چھوڑ دے تاکہ وہ کار کی طرف آجائے۔‘‘ میں نے ان کی ہدایات دہرانے سے پہلے کہا۔ ’’ مجھے یقین ہے کہ آس پاس تمھارے آدمی چھپے ہوئے ہوں گے لیکن یقین کرلو کہ اگر مجھے دھوکا دیا گیا تو میں یہاں خون کی ندیاں بہادوں گی۔ اب تم ایسا کرو کہ…‘‘ میں نے بانو کی ہدایات دہرا دیں۔ سفید فام نے کہا۔’’ ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے ڈائری وہیں ڈال دی اور کار میں بیٹھ گئی۔ بانو کار پیچھے کرنے لگیں۔ سفید فام چونکا۔’’یہ کار کون چلا رہا ہے؟‘‘ اس نے دیکھ لیا تھا کہ میں ڈرائیونگ سیٹ کے برابر میں بیٹھی تھی۔ کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے اس کی آواز مجھے سنائی دے گئی۔ اس سے پہلے کہ بانو مجھے کچھ ہدایات دیتیں‘ میں نے جواب دیا۔‘‘ یہ ایک بہت ہی غیر معمولی کار ہے۔ ریموٹ کے ذریعے یہ اب کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور جس شخصیت کے کنٹرول میں ہے‘ وہ یہاں سے بہت دور ہے۔’’ یہ جواب دیتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آیا کہ ایسا ہونا قطعی ممکن تھا۔ بانو کو میرے ساتھ آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میرا جواب سن کر سفید فام کے چہرے پر حیرت کا تاثر ابھرا تھا۔ ’’چلو جلدی کرو!‘‘ میں نے اس وقت زور سے کہا جب کچھ پیچھے ہٹ جانے کے بعد بانو نے کار روک دی تھی۔ سفید فام تھوڑا سا جھجکا‘ پھر طلعت کا ہاتھ پکڑے پکڑے آگے آنے لگا۔ اس دورانیے میں طلعت بہت پریشان نظر آتی رہی تھی۔ اس کی سانسیں بھی تیزی سے چلنے لگی تھیں۔ سفید فام نے قریب آکر ایک ہاتھ سے ڈائری اٹھائی ۔ اسی ہاتھ سے اسے کھول کر دیکھا ۔ ’’تمہیں ڈائری مل گئی ،اب طلعت کو چھوڑ دو ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اسے چھوڑ دوں گا۔‘‘ سفید فام کے ہونٹوں پر عیارانہ مسکراہٹ ابھری ۔ ’’ لیکن میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ تم خود کو ہمارے حوالے کردو۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے طلعت کو اپنے آگے کر کے اپنی بانہہ طلعت کے گلے میں ڈال دیں ۔ طلعت کی چیخ نکل گئی ۔ سفید فام کہتا رہا ۔ ’’ یہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کار سے گولیاں چلائی جاسکتی ہیں لیکن وہ اندھا دھند چلتی ہیں ۔ مجھے مارنے کی کوشش کی گئی تو تمھاری بہن بھی ماری جائے گی ۔‘‘ اس طرح پاسا پلٹنے کے بعد کیا ہوا؟ کل کے روزنامہ 92 نیوز میں ملاحظہ فرمائیں !