میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگی ۔ ان کے چہرے کے تاثرات تو میں دیکھ ہی نہیں سکتی تھی کیوں کہ پچھلی سیٹ پر اپنی گود میں طلعت کو لٹائے ہوئے تھی ۔ ’’ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ ‘‘ میں بولی ۔ ’’ ہاں صدف !اصل ڈائری تو میرے پاس ہے ۔‘‘ ’’ تو وہ ڈائری کیسی تھی ؟ وہ غیر ملکی تو اسے دیکھ کر مطمئن ہوگیا تھا! ‘‘ ’’ وہ اصل ڈائری کا عکس تھی ۔‘‘ ’’ کیا مطلب ؟‘‘ ’’ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے صدف!…کیا کیا پروگرام موجود ہیں ! … فوٹو شاپ ، کورل ڈرااور بہت کچھ ! …ان پروگراموں سے کیا نہیں بنایا جاسکتا ، اور جو بنایا جاسکتا ہے ، وہ پرنٹر کے ذریعے ٹھوس شکل میں بھی سامنے آجاتا ہے ۔ مجھے زیادہ محنت صرف اس کی ڈائری کے اوراق کا عکس اس طرح لانا پڑا تھا کہ وہ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکے ۔‘‘ ’’ میں سب کچھ سمجھ گئی لیکن آخری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ‘‘ ـ ’’ زیادہ سے زیادہ کل تک اس ڈائری کے اوراق سادہ رہ جائیں گے ۔‘‘ بانوہنسیں ۔ ’’ سر پیٹ لیں گے وہ لوگ اپنا ۔ سمجھ جائیں گے کہ ڈائری اب بھی ہمارے پاس ہے ۔‘‘ ’’ مائی گاڈ!‘‘میں نے طویل سانس لی ۔ ’’ نہ جانے کیا کیا کرلیتی ہیں آپ ؟‘‘ ’’ کیا تم کمپیوٹرپر ایسا نہیں کرسکتیں ؟‘‘ ’’ کوئی بھی کر سکتا ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ لیکن ایسی تحریر جو ختم بھی ہو جائے ، یہ کوئی سائنٹسٹ ہی کر سکتا ہے جو آپ ہیں ، لیکن یہ خیال آپ کو کیسے آیا کہ وہ لوگ یہ ڈائری حاصل کرنے کے لیے طلعت کو اغوا کریں گے ؟ ‘‘ ’’نہیں ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ یہ خیال تو مجھے نہیں آیا تھا کہ وہ طلعت کو اغوا کریں گے لیکن یہ یقین تھا کہ وہ ڈائری حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور ایسا موقع بھی آسکتا ہے کہ انھیں ڈائری دینی ہی پڑے لہٰذا میں نے وہ مصنوعی ڈائری بنالی تھی ۔‘‘ ’’ اگر وہ اس کے حصول کی کوششوں میں دیر کردیتے تو وہ ڈائری آپ کے پاس رکھے رکھے ہی بے کار ہوجاتی ۔ اس کی تحریر کا خاتمہ ہوجاتا! ‘‘ ’’ بغیر تحریر کی ڈائری تو میرے پاس محفوظ ہی تھی ۔ اس پر تحریر کا عکس ڈال کر دوسری ڈائری بھی بن سکتی تھی ۔ تیسری بھی ،چوتھی بھی ! ‘‘ ’’ یہ تو بہت عمدہ کام ہوگیا ۔ اب موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی میرے ذہن میں ایک الجھن ہے ۔‘‘ ’’ وہ بھی دور کرلو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بانو شاید مسکرائی بھی ہوں ۔ ’’ آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر بھی کار اپنے کنٹرول میں لے سکتی تھیں ۔‘‘ ’’ مجھے خیال تھا کہ کبھی کسی خاص چیز کا نشانہ بھی لیا جاسکتا ہے ، جیسے میں نے اس شخص کی پیشانی کا نشانہ لے کر فائر کیا ۔ میری کنٹرولنگ مشین میں یہ کمی رہ گئی ہے لیکن اب میں اسے بھی دور کرلوں گی ۔‘‘ ’’ عجوبے بناڈالے ہیں آپ نے ! ‘‘ میرے لہجے میں تحسین تھی ۔ ’’ یہ ضروری تھا! مجرم بھی اب جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے لگے ہیں ۔‘‘ ’’ خیر! میری بہن تو مل گئی ! … اب جان میں جان آئے گی ممی کی ۔‘‘ ’’ اب تمہیں اپنے گھر کی ہی نہیں ، گھر کے ہرفرد کی سیکیورٹی بڑھا لینی چاہیے ۔‘‘ ’’ میں فوراً مسٹر داراب سے بات کروں گی ۔‘‘ ’’ کچھ خفیہ سیکیورٹی میں بھی قائم کردوں گی ۔‘‘ ’’ اب ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ فری میسن لاج ختم کرنا ہے ۔ مرکز ختم ہو جائے تو اس کے کارکنان دشواری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔‘‘ ’’ اس کے لیے بھی کچھ کریں گے ۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی اس تک پہنچنے کی ۔‘‘ تھکن کے باوجود سارے راستے میری اور بانو کی گفت گو اسی موضوع پر ہوتی رہی ۔ شام گہری ہوچکی تھی جب ہم اپنے شہر میں داخل ہوئے اور اس وقت رات ہوچکی تھی جب کار بانو کے گھر کے احاطے میں داخل ہوئی ۔ ’’ مجھے چھوڑ کر تم اپنے گھر چلی جانا ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ میں پھاٹک پر ہی اترجاتی لیکن خطرہ تو رہے گا ہم دونوں کے لیے ۔ اگر میں پھاٹک پر اترتی تو کہیں سے بھی مجھ پر فائر کیا جاسکتا تھا۔‘‘ بانو نے پورچ میں کار روکی تو مجھ سے ایک سوال کردیا ۔ ’’ سارا دن گزر گیا ۔ تمھارے گھر سے کسی کا فون نہیں آیا!‘‘ ’’ فون آتا تو ڈیڈی ہی کا آتا لیکن انھوں نے اس لیے نہیں کیا ہوگا کہ میں نہ جانے کس سچویشن میں ہوں اور گھنٹی کی آواز سے ڈسٹرب ہوجائوں ۔ اسی لیے مسٹرداراب نے بھی نہیں کیا ہوگا۔‘‘ ’’ہوں۔‘‘ بانو نے سر ہلاتے ہوئے کار کا دروازہ کھولا۔‘‘ اب تم سنبھالواپنی کار ! طلعت کو سونے دو ۔ اپنے گھر پہنچ کر ہی جگانا اسے ۔‘‘ ’’ جی ہاں۔‘‘ میں نے بہ آہستگی صدف کا سر اپنی گود سے اٹھا کر سیٹ پر رکھا ۔ اس کی آنکھ نہیں کھلی ۔ میں ڈرائیونگ سیٹ پر پہنچ گئی ۔ بانو نے انجن بند نہیں کیا تھا ۔ بس کھڑکی کا شیشہ کھول دیا تھا ۔ وہ دروازہ بند کرتے ہوئے بولیں ۔ ’’ سیکیورٹی کا بندوبست فوراً کرنا۔‘‘ ’’ جی ہاں۔‘‘ اس کے بعد ہم میں الوداعی الفاظ کا تبادلہ ہوا اور پھر میں کار حرکت میں لے آئی ۔ ساتھ ہی کھڑکی کا شیشہ بھی بند کرلیا ۔ گھر پہنچ کر میں نے کار کا انجن بند کیا ۔ اتر کر پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تاکہ طلعت کو جگائوں ۔ پھر گھر میں وہ اطمینان سے سوتی رہتی ۔ ڈیڈی اپنی وھیل چیئر کو تیزی سے برآمدے میں لائے ۔ انھوں نے کار کی آواز سن لی ہوگی ۔ ’’ کیا ہوا صدف؟‘‘ انھوں نے وہیں سے پوچھا ۔ ان کی آوا زمیں بے چینی تھی ۔ ’’ طلعت کو لے کر آئی ہوں ڈیڈی!‘‘ میں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔ اس وقت انھوں نے خدا کا شکر ادا کیا ہوگا ۔ ان کی آوازمجھ تک نہیں پہنچی ۔ میں طلعت کے شانے پکڑ کر ہلانے لگی اور اسے بہ مشکل جگا سکی کیوں کہ وہ گہری نیند میں تھی ۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں ۔ میں نے ڈیڈی کی آواز سنی جو ممی اور رفعت کو پکار رہے تھے ۔ جب طلعت نے آنکھیں کھولیں تو میں نے کہا ۔ ’’ اٹھو طلعت ! گھر آگیا ہے ۔‘‘ ’’ گھر آگیا!‘‘ طلعت جلدی سے اٹھی ۔ اس کی آواز میں مسرت تھی ۔ ’’ آئو !‘‘ میں پیچھے ہٹی ۔ طلعت بہ عجلت کار سے اتری اور روتی ہوئی تیزی سے برآمدے کی طرف گئی جہاں ممی اور رفعت آچکی تھیں ۔ وہ ایک رقت انگیز منظر تھا جب طلعت امی ابو اور رفعت ملی ۔ ڈیڈی کے علاوہ سبھی خوشی سے رو پڑے تھے ۔ میں بھی آب دیدہ ہوگئی تھی لیکن ڈیڈی بس مسکراتے رہے تھے ۔ آخر وہ ایک فوجی تھے جو اپنے جذبات کو آنکھوں میں آنے سے روک سکتے تھے ۔ فری میسن لاج کا سراغ لگانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا ؟ روزنامہ 92 نیوزکی آئندہ اقساط میں پڑھیے !