اس رات طلعت تو بہت گہری نیند سوئی ہی ہوگی لیکن ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا ۔ شانگلہ ہلز جانے آنے سے میں اتنی ہی تھکن ہوئی تھی ۔ صبح میں عادت کے مطابق وقت پر ہی جاگی لیکن کسل مندی تھی جس کے باعث میں کچھ دیر بستر پر ہی پڑی رہی ۔ دماغ میں گزرے ہوئے دن کے واقعات چکراتے رہے ۔ اگر کسی کار کو ہیرو کہا جاسکتا ہے تو کل کے واقعات کی ہیرو وہ کار ہی تھی جو بانو نے مجھے دی تھی جسے اب میں ’’الٹرا فائٹر‘‘ کا نام دے چکی تھی ۔ شانگلہ ہلزمیںفائرنگ کی آوازیں بہت دور تک گئی ہوں گی ۔ پولیس نے اس جگہ کا سراغ لگانے کی کوشش بھی کی ہوگی اور یقینا پہنچ بھی گئی ہوگی ۔ فری میسن لاج کے لوگ اپنے مرنے والوں کی لاشیں تواٹھا لے گئے ہوں گے لیکن خون کے دھبوں اور گولیوں کے نشانات وہ نہیں مٹاسکتے تھے ۔ اسی سے پولیس نے سمجھ لیا ہوگا کہ فائرنگ وہاں ہوئی تھی ۔ میری کار کے ٹائروں کے نشانات تو پولیس کو سر سبز گھاس پر نہیں مل سکتے تھے لیکن اگر وہ اس سڑک پر پہنچ جاتی جہاں سے کار اوپر چڑھی اور اتری تھی تو اسے ٹائروں کے نشانات مل جاتے ۔ پولیس کو ایسا کوئی گواہ بھی مل سکتا تھا جس نے میری کار وہاں سے اترتے دیکھی ہو گی ۔ اگر اس نے کار کا نمبر بھی دیکھ لیا ہوگا تو وہ پولیس کو بتا سکتا تھا ۔ اس صورت میں پولیس مجھ تک پہنچ سکتی تھی ۔ اس مسئلے پر مجھے بانو سے بات کرنے کا خیال ہی نہیں آیا تھا ۔ آخر میں بستر سے اٹھی اور غسل کیا ۔ کپڑے تبدیل کررہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور رفعت کی آواز سنائی دی ۔ اس نے اطلاع دی تھی کہ ناشتے کی میز پر میرا انتظار کیا جارہا تھا ، میں وہاں پہنچی ۔ طلعت کرسی سے اٹھ کر مجھ سے لپٹ گئی اور بولی ۔ ’’ مجھے ایسا لگ رہا ہے باجی جیسے میں کوئی بھیانک خواب دیکھ کر جاگی ہوں۔‘‘ میں نے اسے تھپک کر اور پیار کر کے کرسی پر بٹھا دیا اور خود بھی بیٹھ گئی ۔ میری کرسی ڈیڈی کے بائیں ہاتھ پر ہوتی تھی ۔ ان کی دائیں جانب ممی کی کرسی میرے سامنے تھی ۔ وہ مجھے اس طرح دیکھ رہی تھیں جیسے واری صدقے جارہی ہوں ۔ میں گزشتہ رات مسٹر داراب سے بات کر چکی تھی چنانچہ ہمارے گھر کی سیکیورٹی کا بہت اچھا انتظام ہوچکا تھا ۔ سیکیورٹی آفیسر نے ڈیڈی سے ملاقات بھی کی تھی اور بتایا تھا کہ اب کوئی اس گھر سے باہر جائے گا تو بھی حفاظت کے لیے دو گاڑیاں ساتھ ہوں گی ۔ فوری طور پر چار گاڑیاں تو گھر کے باہر موجود ہی تھیں ۔ رفعت اسکول جاتی تو دو گاڑیاں اس کے ساتھ اور طلعت جاتی تو دوگاڑیاں اس کے ساتھ ہوتیں ۔ اگر ڈیڈی ممی کو کہیں جانا ہوتا تو انھیں آدھے گھنٹے پہلے سیکیورٹی آفیسر کو بتانا پڑتا اور آدھے گھنٹے میں ان کی سیکیورٹی کے لیے گاڑیاں آجاتیں ۔ یہ میں نے مسٹر داراب سے کہہ دیا تھا کہ جب میں باہر نکلوں تو میرے لیے سیکیورٹی کا کوئی بندوبست نہ ہو ۔ یہ میں نے ان کو نہیں بتایا تھا کہ ’’ الٹرا فائٹر‘‘ سے اچھی سیکیورٹی مجھے کوئی بھی نہیں دے سکتا تھا ۔ بانو مجھ سے کہہ چکی تھیں کہ وہ بھی خفیہ سیکیورٹی کا بندوبست کر دیں گی اور مجھے یقین تھا کہ وہ کر چکی ہوں گی اس لیے اب مجھے اپنے گھروالوں کے معاملے میں کوئی فکر نہیں رہی تھی ۔ ناشتا کر کے میں دفتر پہنچی ۔ مسٹر داراب نے مجھے بتایا ۔ ’’ برائن اب اس قابل ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر نے پولیس کو اس کا بیان لینے کی اجازت دے دی ہے ۔ یہ رپورٹ براہ راست تمہیں ہی دی جاتی لیکن ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم بہت تھکی ہوئی سوئی ہوگی اس لیے صبح صبح تمہیں فون کرکے ڈسٹرب نہ کیا جائے ۔‘‘ ’’ کام کی بات مجھے کسی وقت بھی ڈسٹرب نہیں کرسکتی ۔‘‘ ’’ یہ ایک اچھی عادت ہے ۔ خیر ، میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں کمانڈر ! کل تم اپنی بہن کو چھڑانے میں کام یاب ہوگئیں ۔ میں نے سیکیورٹی کا بندوبست …‘‘ ’’ وہ مجھے ڈیڈی سے معلوم ہوچکا ہے ۔‘‘ میں نے مسٹر داراب کی بات کاٹ دی ۔ ’’ یہ بتائیے کہ اس نے کیا بیان دیا؟ اس کی رپورٹ بھی مل گئی ہوگی آپ کو ؟‘‘ ’’ ہاں۔‘‘ مسٹرداراب نے جواب دیا ۔ ’’ وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ اس کی یادداشت چلی گئی ہے ۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں اور کیسے اتنا زخمی ہو کر ہاسپٹل پہنچا ۔ جب اسے بتایا گیا کہ اس کی جیب سے اس کا شناختی کارڈ ملا ہے جس پر اس کا نام برائن لکھا ہے ۔ اسے کارڈ دکھایا بھی گیا لیکن اس نے اس سے بھی اپنی لاعلمی ظاہر کی ۔ یہ تو شاید تمہیں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہوگا کہ نادرا کے پاس اس کارڈ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یعنی وہ شناختی کارڈ جعلی ہے ۔‘‘ میں سوچتی ہوئی بولی ۔ ’’ تو وہ یادداشت چلی جانے کا ڈرا ما کررہا ہے ؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ میں نے آپ کو دو آدمیوں کی تصویریں دی تھیں ۔‘‘ میں نے ان دو تصویروں کی بات کی تھی جو مجھے بانو سے ملی تھیں ۔ بانو نے بتایا تھا کہ وہ ان آدمیوں کی تصویریں ہیں جو ان کاروں کو ڈرائیور کررہے تھے جو میرے دائیں بائیں چل رہی تھیں ۔ برائن کی کار میرے پیچھے تھی جسے میری کار نے ٹکر ماری تھی ۔ برائن شدید زخمی ہوا تھا اور اس کا وہ ساتھی مر گیا تھا جس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال رکھی تھی ۔ مسٹر داراب نے میرے سوال کاجواب دیا ۔ ’’ ان کے بارے میں ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی کہ انھیں کہیں دیکھا گیا ہو۔‘‘ میں ان سے ایک اور سوال کرنا چاہتی تھی لیکن چپ رہ گئی کیوں کہ مسٹرداراب کے فون کی گھنٹی بجی تھی ۔ مسٹرداراب نے کال ریسیو کی ۔ دوسری طرف سے سے جو کچھ بھی کہا گیا وہ ظاہر ہے کہ میں نہیں سن سکتی تھی ۔ مسٹرداراب کیوں کہ مودبانہ انداز میں ’’ جی …جی ‘‘ کر رہے تھے، اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کال بگ پرسن کی تھی ۔ آخر مسٹر داراب نے فون رکھ کر مجھ سے کہا ۔ ’’ تم سمجھ گئی ہوگی کہ کس کی کال تھی ! ‘‘ ’’ ہاں۔‘‘ ’’ بگ پرسن کی ہدایت ہے کہ تم چولستان پہنچو!…وہاں ریگ زاروں میں وہ جو شکار گاہیں ہیں جہاں عرب ریاستوں کے لوگ تلور کا شکار کرنے آتے ہیں ، وہاں ریسٹ ہائوس بنے ہوئے ہیں،شاید گیسٹ ہائوس بھی ہوں ۔ امکان ہے کہ ان میں سے کسی ریسٹ ہائوس میں فری میسن لاج قائم کی گئی ہو جو موساد کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔‘‘ ’’ بگ پرسن کو یہ کیسے معلوم ہوگیا!‘‘ مجھے کچھ تعجب ہوا تھا ۔ ’’ میں ان سے سوال نہیں کرسکتا تھا ، یہ تم خوب جانتی ہوگی۔‘‘ میں نے سر ہلا دیا ۔ بگ پرسن کی ہدایت ملنے کے بعد میں بھول ہی گئی تھی کہ ان کی کال آنے سے پہلے میں مسٹر داراب سے کیا سوال کرنا چاہتی تھی ۔ طالبانی مرکزاور شانگلہ کے بعد چولستان کی مہم کیسے شروع ہوئی ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیے! ٭٭