بانو سے بات کرکے میں پھر ممی کی طرف متوجہ ہوئی جن کی حالت بہ دستور غیر تھی ۔ ’’چلیں ‘ آپ اپنے کمرے میں چلیں ۔‘‘ میں نے انھیں اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ’’آپ کو آرام کرنا چاہیے ۔‘‘ ’’ میں ان سے یہی کہہ رہا تھا۔‘‘ ڈیڈی بولے ۔ ’’میری طلعت!‘‘ والدہ کی آواز رندھی ہوئی تھی ۔ ’’ وہ آجائے گی ممی ! ہم انھیں تاوان ادا کردیں گے ۔‘‘ انھیں تسلی دینا ضروری تھا ۔ میں نے انھیں کسی نہ کسی طرح ان کی خواب گاہ میں پہنچا کر لٹایا ۔ رفعت اور ڈیڈی بھی ساتھ تھے ۔ رفعت نے چپ سادھ لی تھی ، روہانسی نظر آرہی تھی ۔ ’’ممی ‘‘ مجھے اپنے کمرے میں کچھ کام ہے ۔ فون کرنا ہے اپنے محکمے کو ، دو ایک اور فون بھی ضروری ہیں ۔‘‘ والدہ بستر پر لیٹی چھت کو تکتی رہیں ۔ میری بات کے جواب میں کچھ بولیں بھی نہیں ۔ میں نے ڈیڈی کی طرف دیکھا ۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ میں جائوں ۔ میں اپنے کمرے میں لوٹ آئی اور گھڑی دیکھتی ہوئی ٹہلتی رہی ۔ فون اب کسی وقت بھی آسکتا تھا ۔ پندرہ منٹ گزر چکے تھے ۔ بہ مشکل ایک منٹ بعد ہی ڈیڈی بھی اپنی وھیل چیئر پر بیٹھے ہوئے میرے کمرے میں آگئے ۔ مجھے اندازہ بھی تھا کہ فون پر میری جو باتیں ہوچکی تھیں ، وہ انھیں جاننے کے لیے بے چین ہوں گے ۔ میں نے انھیں سب کچھ بتا دیا ۔ اس دوران میں بھی فون آیا تھا ۔ ’’ملبہ.....‘‘ ڈیڈی بڑبڑائے ، پھر مجھ سے بولے ۔ ’’میں جی ایچ کیو میں کسی سے رابطہ کرتا ہوں ۔ ممکن ہے ان لوگوں کو ڈائری مل گئی ہو ! ‘‘ ’’دیکھ لیجیے ! ‘‘ میں نے ان سے کہا ۔ لیکن ڈائری اگر مل بھی جاتی تو کسی ایسے منصوبے پر عمل کی ضرورت تھی کہ وہ ان لوگوں کو دیے بغیر طلعت کو بازیاب کرالیا جاتا ۔ اس ڈائری کی بہت اہمیت تھی ۔ مجھے اپنی حماقت کا اور زیادہ شدت سے احساس ہونے لگا ۔ اس وقت کی حکومت پر تو مجھے اعتبار نہ تھا ۔ انتخابات کے بعد اگر کوئی محب وطن پارٹی اقتدار میں آتی تو وہ ڈائری اسے دی جاسکتی تھی اور یہ معاملہ یو این او میں اٹھایا جاسکتا تھا ۔ ڈیڈی میرے کمرے سے چلے گئے ۔ والدہ کی پریشانی کے باعث وہ اپنا موبائل خواب گاہ میں ہی بھول آئے تھے ۔ فون کی گھنٹی مزید ایک منٹ بعد بجی ۔نمبر اجنبی ہی تھا لیکن وہ نہیں تھا جس سے پہلے کال کی گئی تھی ۔ میں کھسیا گئی ۔ ’’یس.....‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ میں نے تمھیں کچھ زیادہ وقت دیا تاکہ تم اپنی ماں کو اچھی طرح سنبھال سکو ۔‘‘ دوسری طرف سے وہی آواز آئی ۔ ’’تم نے اب دوسرے نمبر سے فون کیا ہے!‘‘ وہ ہنسا ۔ ’’ ہاں ۔ پہلے نمبر کو تو تم ٹریس کروا رہی ہوگی ۔‘‘ میں چپ رہ گئی ۔ ان لوگوں کو بے وقوف سمجھنا میری غلطی ہی تھی ۔ ’’ کیا فیصلہ کیا تم نے ؟ ‘‘ وہ قدرے توقف سے بولا ۔ ’’مجھے یقین نہیں ہے کہ میری بہن کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی ۔‘‘ ’’ تو اس سے بات کرلو ، اسی سے پوچھ لو ۔‘‘ ’’ کیا وہ تمھارے قریب ہے ؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور معمولی توقف سے میں نے طلعت کی آواز سنی ۔ ’’باجی!‘‘ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بہت سہمی ہوئی تھی اور یہ قدرتی امرتھا ۔ ’’ہاں طلعت!‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ گھبرائو نہیں ، جتنی جلد ممکن ہوا ، تم ہمارے پاس ہوگی ۔‘‘ ’’ آپ مان رہی ہیں ان کا مطالبہ ؟‘‘ ’’تم سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہے وہ ڈائری۔‘‘ میں نے اسے بہلایا۔ ’’ یہ بتائو ، ان لوگوں نے تمھارے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں کی ؟‘‘ ’’ اس کے علاوہ کچھ نہیں باجی کہ انھوں نے مجھے عین اس وقت اغوا کرلیا جب میں اپنی دوست سے ملنے کے بعد اپنی کار میں بیٹھنے والی تھی ۔‘‘ ’’ گھر کے احاطے سے ؟‘‘ میں نے فوراً پوچھا ۔ ’’میری دوست کا بنگلہ نہیں ہے باجی ! …وہ اپارٹمنٹ میں رہتی ہے ۔‘‘ ’’ پریشان نہ ہونا۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ پھر موبائل طلعت سے لے لیا گیا اور وہی مردانہ آواز آئی ۔’’ یہ اچھی بات ہے کہ تم نے ہمارا مطالبہ تسلیم کرلیا ہے ۔‘‘ میں نے اس کی بات سے سمجھا کہ اس نے موبائل کا اسپیکر آن رکھا تھا ، میری اور طلعت کی باتیں سن لی تھیں ۔ ’’ہاں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ لیکن تبادلے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟‘‘ ’’ میں تمھیں ایک پتا بتاتا ہوں ۔ ڈائری اس پتے پر بھیج دو ۔ تمھاری بہن کو کسی ایسی سڑک پر چھوڑ دیا جائے گا جہاں سے وہ ٹیکسی کر کے اپنے گھر پہنچ جائے گی ۔‘‘ ’’اتنا بھروسا تو تم لوگوں پر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ میری بہن کو چھوڑ دو ۔ ڈائری تمہارے پتے پر بھیج دی جائے گی ۔ ظاہر ہے کہ تم میری بات نہیں مانو گے ۔ تم بھی مجھ پر بھروسا نہیں کرو گے۔ ‘‘ دوسری طرف سے کچھ رک کر کہا گیا ۔ ’’ تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے ڈائری دو ، دوسرے ہاتھ سے اپنی بہن کو لے لو ۔ مطلب یہ کہ تمھاری بہن ہمارے ساتھ ہوگی ۔ ڈائری لے کر وہ تمھارے حوالے کردی جائے گی ۔‘‘ ’’ کس جگہ؟‘‘ کہاں ملنا ہوگا؟‘ ‘ ’’ اس کے لیے تم کو کئی گھنٹے کا سفر کرنا پڑے گا ۔ شانگلہ کی پہاڑیوں میں آجائو۔‘‘ ’’ قریب کی کوئی جگہ بتائو!‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ قریب کی جگہ!‘‘ وہ ہنسا ۔ ’’ تاکہ تم آسانی سے کوئی کھیل ، کھیل جائو ؟ ‘‘ ’’ شانگلہ میں ایسا نہیں ہوسکتا؟‘‘ ’’ نہیں ۔ وہاں تم ہمیں دھوکا نہیں دے سکو گی؟‘‘ ’’ شانگلہ میں کس جگہ ؟ ‘‘ ’’ کل صبح تمھیں اس جگہ کا نقشہ بھیج دیا جائے گا ۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے ۔ میں رات بھر میں سوچ بھی لوں گی کہ دونوں میں سے کیا طریقہ بہتر رہے گا ۔‘‘ ’’ سوچ لو!‘‘ ’’ میری بہن کو اس عرصے میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے ! ‘‘ ’’ نہیں ہوگی ۔‘‘ میں نے رابطہ منقطع کردیا ۔ یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس میں عجلت نہیں کی جاسکتی تھی ۔ اب مجھے فوراً بانو سے ملنے کے لیے جانا تھا ۔ یہ پے چیدہ معاملہ کیسے طے ہوسکا ؟ کل کے اخبار 92 میں ملاحظہ فرمائیں!