آٹھ فروری دوہزار چوبیس کی تاریخ آئندہ انتخابات کئے لئے موزوں قرار دے دی گئی ہے۔یہ انتخابات اگرچہ آئینی مدت کے گزر جانے کے بعد کافی تاخیر سے ہو رہے ہیں تاہم یہ بحث اب قدرے غیر متعلقہ ہو چکی ہے کہ یہ آئینی انحراف کیونکر ہوا اور کون اس تاخیر کا ذمہ دار ہے ۔آئین کے تمام محافظ ادارے اس پر خاموش ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ انحراف روایت نہ بن جائے۔ ویسے تو پاکستان کی چھہتر سالہ سیاسی تاریخ میں آئین شکنی اور آئین سے انحر اف کی روایات اجنبی نہیں ہیں۔ پاکستانی سیاسی نظام میں آئین کی پاسداری ، سیاسی اقتدار میں عوام کی بھرپور اور موثر شرکت ، معاشی خوشحالی اور ایک متمدن سماج کی تعمیر کو ہمیشہ ہی کم اہم سمجھا گیا ہے ۔ پا رلیمانی جمہوریت کے سیاسی تقاضوں کو نہ تو سیاسی جماعتیں پورا کر پاتی ہیں اور نہ ہی ریاستی اداروں کی یہ منشا ء نظر آتی ہے کہ جمہوری سیاسی ادارے مستحکم ہو سکیں اور اختیارات نچلی سطح تک عوام کو حقیقی معنوں میں منتقل ہو سکیں۔ انتخابات کو جمہوری سیاسی نظام کے قیام کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے، اگر ان کا انعقاد منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف طرز عمل کے ذریعے ممکن ہوا ہو ۔ جمہوری سیاسی معاشروں میں حکومتوں کی تشکیل اور اقتدار کی منتقلی کا یہی انداز مستحکم ہو چکا ہے ۔ پاکستان میں انتخابات کا عمل ،ان کے نتائج اور ان کا تسلیم کیا جانا ہمیشہ ہی تنازعات کا شکار رہے ہیں جس کا نتیجہ سیاسی نظام اور سیاسی اداروں کی کمزوری کی صورت ظاہر ہوتا رہا ہے۔سیاست دان اس رمز کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مسلسل غفلت کا شکار ہوئے ہیں کہ شفاف اور غیر متنازع انتخابات ہی خود ان کے اور سیاسی اداروں کے وقار کے لئے کتنے ضروری ہیں ۔مگر اے بسا آرز و کہ خاک شدہ۔انتخابات میں کم و بیش تین ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی خدشات ، سیاسی خلفشار اور شکایات کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان پپلز پارٹی کو وفاق اور پنجاب کی نگراں حکومتوں سے یہ شکایت ہے کہ وہ واضح طور پر مسلم لیگ نواز کے لئے سہولت کار بنی ہوئی ہیں اورا ن کی غیر جانبداری قائم نہیں رہی ہے لہذا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال میں شفاف انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہوگا ۔ پاکستان تحریک انصاف میں ، نو مئی کے واقعات کے بعد ، جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ وہ ریاستی عتاب کا شکار ہے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نو مئی کا واقعہ ( سانحہ ) سنگین نوعیت کا حامل تھا۔ اس میں ملوث تمام لوگ قابل گرفت اور سزا کے مستحق ہیں ۔انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا ضروری ہے مگر پوری سیاسی جماعت کو اور اس کی تمام قیادت کو عتاب کا نشانہ بنا یا جائے یہ ہر گز مناسب نہیں، جلد یا بدیر اس کے سیاسی نتائج ظاہر ہوںگے ۔ پاکستان تحریک انصاف ایک قومی سیاسی جماعت ہے۔ غلط یا صحیح اس کا حلقہ ء اثر بہت وسیع ہے۔ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اسے انتخابات میں شریک ہونے کا پورا موقع ملنا چاہیئے۔ صحیح اور غلط کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے اور یہ ان ہی کا استحقاق ہے۔نگراں حکومتیں اگرچہ اس با ت کا اظہار تو کر رہی ہیں کہ سب سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں شرکت کا یکساں موقع حاصل رہے گا مگر سیاسی منظر پر جو نظر آرہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے لئے جس طرح آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں اسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیا جا چکا ہے ۔ انتظامی اور عدالتی سطح پر اس جماعت کے لئے نرم گوشہ سب کو نظر آرہا ہے ۔جس طرح مقدمات ختم ہو رہے ہیں، ضبط شدہ اثاثے واپس ہو رہے ہیں اور سرکاری سطح پر اس جماعت کی پذیرائی ہو رہی ہے ( اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب کے گورنر ہائوس میں گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا تھا ) اس سے انتخابات کے انعقاد اور ان کے نتائج پر شبہات تو پیدا ہونا ہی ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس صورتحال کی یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ مسلم لیگ کے ساتھ گزشتہ حکومت میں جو زیادتی کی گئی تھی اب اس کا ازالہ کیا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ کے ساتھ جو زیادتی (اگر) ہوئی بھی تھی تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیئے کہ اب وقت اور حالات کے بدل جانے سے تحریک انصاف کے ساتھ بھی زیادتی ہو۔ ایک غلطی کا ازالہ دوسری غلطی سے نہیں کیا جانا چاہیئے۔ مسلم لیگ کو ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے تحریک انصاف کی ( غیر حقیقی )شکست و ریخت پر افسوس اور ملال ہونا چاہئے اور اس کی مذمت کرنی چاہئے ۔ جمہوری سیاست کا یہ بنیادی تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع حاصل ہو۔ اس وقت مسلم لیگ نواز جس سمت بھی کھڑی ہے وہ جمہوری اور سیاسی اصولوں کی مخالف سمت ہے۔ جلد یا بدیر اسے اس کا ادراک ہوگا۔ سیاسی تاریخ میں مقام اور مقبولیت کا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اپنے تمام تر سیاسی اور غیر سیاسی تجربے کے باوجود وہ جمہوریت کے بنیادی رموز سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکی۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔داخلی سلامتی ، معیشت، مہنگائی،بیروزگاری ،قرضوں کے غیر معمولی دبائو اور سیاسی و ریاستی اداروں کے مسلسل انحطاط نے ریاست کے مستقبل سے متعلق شبہات میں اضافہ کردیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے اور نبرد آزما ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی اور انتظامی استحکام ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب غیر متنازع انتخابات کے نتیجے میں سیاسی حکومت قائم ہو اور اسے تسلسل سے کام بھی کرنے دیا جائے ۔پاکستان میں سیاسی اور معاشی ابتری کی سب سے اہم وجہ ہی یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں کو سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے غیر ضروری طور پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث حکومتیں اہم قومی مسائل پر قرار واقعی توجہ دینے سے قاصر رہتی ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی نظام پر اثر رکھنے والی تمام قوتوں کو اس بات کی سنجیدگی کے ساتھ کوشش کر نی چاہیئے کہ :۔ انتخابات ہر قسم کے شکوک و شبہات سے مبرا ہوں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ان میں شرکت کا یکساں موقع حاصل ہو ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نتائج کو تسلیم کئے جانے کی جمہوری روایت قائم ہو۔ حکومتوں کو غیر سیاسی اور غیر ضروری طور پر ختم کرنے کی روش کا خاتمہ ہو۔ اور آخر میں مگر سب سے اہم یہ کہ : تمام سیاسی اور ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرہ ء کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز رکھیں ۔ اگر ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنا لیا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ملک میں ایک غیر متنازع اور مستحکم حکومت کے قیام کی جانب قدم بڑھا لئے گئے ہیں جو ریاست کی سلامتی اور عوامی فلاح کے لئے بہت ضروری ہیں۔