دھماکہ خیز آڈیوز ویڈیوز منظر عام پر آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز بھی ایک آڈیو کلپ منظر عام پر آیا ہے جس میں سنائی دینے والی آواز مبینہ طور پر چارلس گتھری کی ہے جس میں وہ یہ تصدیق کرتے سنائی دیتے ہیں کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کو نوٹرائز کرانے کا عمل میاں نواز شریف کے دفتر میں مکمل کیا گیا اور یہ کہ اس موقع پر ماحول کافی دوستانہ تھا۔ اس مبینہ آڈیو کے مطابق چارلس گتھری جانتے تھے کہ اس بیان حلفی کا مواد نواز شریف سے متعلق ہے اور وہ اس کے بینیفشری ہیں ، مصروفیت کے باعث انہوں نے اس دستاویز کو تفصیل سے نہیں پڑھا۔آڈیو منظر عام پر لانے والے رپورٹر عرفان ہاشمی کا دعویٰ ہے کہ اس آڈیو کا فارانزک بھی کرایا گیا ہے جس سے اس کے اصل ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ واضح رہے یہ آڈیو اس دن جاری ہوئی جس دن رانا شمیم پر فرد جرم عائد ہونا تھی ، یہ الگ بات ہے کہ یہ آڈیو یا اس کا موادفرد جرم عائد ہونے کے وقت عدالت میں زیر بحث نہیں لایا گیا لیکن اس کے باوجود یہ آڈیو صورتحال کا صحیح ادراک کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل رانا شمیم کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر ن لیگ کی طرف سے ایک پورا بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی ،کہا گیا نواز شریف اور مریم کو سزا دلوانے میں جسٹس ثاقب نثار ایک سازش کو طور پر کھیل میں شریک تھے اور وہ اس سلسلے میں دبائو ڈال کر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں مریم نواز کے کیس کی سماعت سے دو دن پہلے منظر عام پر آنے والے اس بیان حلفی کا اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیا تھا اور گذشتہ روز رانا شمیم پر فرد جرم بھی عائد کر دی گئی۔ پوری صورتحال کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مریم نواز اپنی سزا کو ثاقب نثار کی کسی سازش کا نتیجہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ الٹا کئی شواہد ثابت کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی عدالتوں ، اداروں اور ججوں کو متنازع بنانے کی کوشش میں رانا شمیم سے ساز باز کی ہے۔ یہ کوشش خود کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی کوشش تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اداروں کے وقار اور تشخص کو مجروح کرنے کی مجرمانہ کوشش بھی ہے۔ اگر ادارے ہی اپنا وقار کھو دیںاور عوام کو باور کرا دیا جائے کہ ان کے لیے انصاف کا کوئی پلیٹ فارم باقی نہیں بچا ہے ، پاکستان کو اس سے زیادہ نقصان پہنچانے کے مترادف کوئی فعل نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے امریکہ میں بیٹھے ایک صحافی کی طرف سے ثاقب نثار کی ایک مبینہ آڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ مبینہ طور پر شریف خاندان کو سزائیں دلانے سے متعلق بات چیت کرتے پائے گئے تھے۔ چند ہی دن میں پاکستانی میڈیا ہی کے کچھ حلقوں کی طرف سے ثبوت مہیا کر دیے گئے کہ کیسے ثاقب نثار کی مختلف آوازوں اور الفاظ کو جوڑ کر ایک کلپ بنا دیا گیاتھا۔ اس آڈیو سے فائدہ اٹھانے کے لیے مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی جس میں ثاقب نثارکے محاسبے اور اپنے کیسز کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت مریم نوازنے اپنا وکیل تبدیل کرتے ہوئے ایک نئی درخواست عدالت میں دائر کی تھی جس میں شوکت صدیقی اور مرحوم ارشد ملک کے بیانات اور تقریروں کا حوالہ دے کر عدالت سے ان کی سزائیں ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کرنے کے بعد کیا فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔کیا کسی معتبر پلیٹ فارم پر ثابت کیا جا سکا کہ ثاقب نثار کی سربراہی میںشریف فیملی کے خلاف عدالتی سازش کی گئی ؟ کیا ثابت کیا جا سکا کہ ثاقب نثار کی لیک کی جانے والی آڈیو اصلی تھی؟ کیا یہ ثابت ہو سکا کہ رانا شمیم کی جانب سے لگائے گئے الزامات درست تھے؟ اگر کسی معتبر پلیٹ فارم پر کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکا تو مریم کو ان کے کیسز میں فائدہ کیسے مل سکتا تھا۔ ایک اور نکتہ بھی بڑا اہم ہے اور وہ یہ کہ ثاقب نثار کی مبینہ لیک آڈیو اور رانا شمیم کے بیان حلفی کو مریم نواز کی لیگل ٹیم نے عدالتی ریکارڈ اور مواد کا حصہ کیوںنہ بنایا جبکہ اسے ریکارڈ کا حصہ بنا کر کیس میں فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا اور یوں بھی اگر شوکت صدیقی اور ارشد ملک کے بیانات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تو ثاقب نثار اور رانا شمیم کے بیانات کو کیوں نہیں؟ قصہ مختصرکہ شریف فیملی کے کیسز وہیں کھڑے ہیں جہاں آڈیو ویڈیو کا کھیل شروع ہونے سے پہلے کھڑے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلیں بغیر کسی رد و بدل کے معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔ججز نے کسی آڈیو ویڈیو ہنگامے کا کوئی اثر قبول ہی نہیں کیا جیسے باہر کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ عدالت میں تو چلیے کوئی فرق نہیں پڑا لیکن کیا عوامی سطح پر یہ رائے بنائی جا سکی ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف کی سزائیں ثاقب نثار کی سازش کا نتیجہ تھیں ۔ کیا بحیثیت مجموعی عوام رانا شمیم کے بیان حلفی کو درست مانتے ہیں ؟ کیالوگ ان کا موقف خریدنے کو تیار ہیں کہ انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی سے وعدہ پورا کرنے کی غرض سے بیان حلفی لکھ کر لاکر میں رکھا اور وہ کبھی بھی اسے منظر عام پر نہیں لانا چاہتے تھے۔ اگر مریم نواز اور ان کے سیاسی ساتھی کم از کم عوامی سطح پر یہ بیانیہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں تو بھی چلیں یہ ایک کامیابی ہے کہ عدالتی محاذ پر نہ سہی عوامی محاذ پر یہ جنگ جیت لی گئی ، لیکن اگر عوام بھی رانا شمیم پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہیں ن لیگ کا پرانا ورکر اور نوازشریف کا دیرینہ ساتھی سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ یہ سب انہوں نے صدر پاکستان بننے کے لالچ میں کیا ہے تو پھر حاصل کیا ہوا ؟