سیاروں پر کمندیں ڈالنے والا انسان اور عقل کو حیران کر دینے والی ایجادات آج تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ فلاں علاقے میں ٹھیک اس وقت زلزلہ آ سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان کی سیاست میں کس وقت کیا تغیر و تبدیلی ہو سکتی ہے اس کی جانکاری بھی زلزلے کی طرح صرف کائنات کے مالک کے علاوہ کسی کو نہیں۔میں جب بھی اپنے وطن کے کسی سیاستدان ‘ بیورو کریٹ‘ کمانڈرز‘ صنعت کار سے ملتا ہوں تو ان میں سے بیشتر کے چہرے پر صاف لکھا نظر آتا ہے ’’ہم عام آدمی نہیں ہیں‘‘ جب میں کسی ایسے سرمایہ کار سے ملتا ہوں جو اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کا خواہشمند ہے تو اس کی زبان پر ان گلے شکوئوں کی بھر مار ہوتی ہے کہ وہ عدالتوں میں پیش ہو۔ ایف آئی اے کے دفتر میں حاضریاں لگائے‘‘۔ نیب کے مراسلوں کا جواب دے‘ متعلقہ اتھارٹیز میں ماتھا ٹیکے اعلیٰ آفسران اور با اختیار لوگوں کے ساتھ رابطے رکھے۔ لنچ ڈنر اور تحائف پیش کرنے کی مشق کرے۔ ان تمام باتوں اور لوازمات کو مکمل کرنے کے بعد جو وقت اور انرجی بچے وہ اپنے مجوزہ منصوبے کی تکمیل پر صرف کرے۔ آپ کو اگر اللہ نے نوازا ہے تو ایسے حالات میں کیا آپ اس ملک میں کسی نئے پروجیکٹ پر کام کرنے کا حوصلہ کر سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ ضرور دے کہ آپ جب پوری دنیا میں سرمایہ کار تلاش کر رہے ہیں لیکن جب آپ کے اپنے ملک کا کوئی ہم وطن اپنی دھرتی پر سرمایہ کاری کا خیال دل میں لاتا ہے تو آپ اس کی مت مار دیتے ہیں تو کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کوئی ایسا مربوط صاف ستھرا اور آسان نظام بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ سرزمین جو دنیا کے کسی بھی ملک کی طرح مواقع سے بھر پور ہے ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے اجاڑا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا پوٹینشل اس کے اوورسیز ہیں جب آپ ان کے لئے سرمایہ کاری کے منفعت بخش ذرائع پیدا کریں گے تو پھر پوری دنیا کے سرمایہ کار آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ دیکھنا یہ کہ کب تک ہم اس گلے سڑے نظام کو سہارا دیتے رہیں گے۔جس نے ہمیں غیر ملکی قرضوں کی بیساکھیوں پر لاکھڑا کیا ہے۔ مسائل اور پریشانیاں بادلوں کی طرح چھائی ہوئی ہیں 75سال سے چلتی فلم میں آخر ٹریجڈی ہی کیوں ہے؟ ان ماہ و سالوں میں ہم نے صرف ہاتھ پھیلائے ہیں۔ وقت گزرتا گیا اور ہمارے مانگنے والے ہاتھ دراز ہوتے گئے کسی صاحب اقتدار اور اختیار کو یہ احساس ہی نہیں کہ اس ملک اور اس میں رہنے والے کروڑوں لوگوں پر کیا گزر رہی ہے ہم بھی کیسے لوگ ہیں قرضہ مل جاتا ہے تو پورا ایوان تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ہماری تاریخ کیا ہے پیچ و خم کا سفر ہے۔ نشیب و فراز کی مسافت ہے آخر ہم کیوں محسوس نہیں کر رہے کہ ہماری تاریخ ہانپ رہی ہے لمبی لمبی سانسیں لے رہی ہے پوری تاریخ میں امید کے چند عنوان ہیں۔ باقی پوری کہانی ہرگز ہرگز قابل فخر نہیں سیاست میں عمل اور ردعمل ہمیشہ ایک ساتھ ہوتے ہیں، ہمارے ہاں اس عمل اور ردعمل کی سیاست ہو رہی ہے۔ مسائل کا لامتناہی سلسلہ ہے جس نے پوری قوم کو دبوچ رکھا ہے مہنگائی کی تباہ کن ہولناکیوں کو دیکھ کر ہر طرف چیخ و پکار اور آہ و بکا ہے کوئی سمجھائے تو سہی کہ عام پاکستانی بجلی کے ہوش اڑا دینے والے بل کیسے ادا کرے۔ ہماری سیاست میں یہی تنائو کھچائو یہ دبائو مخالفت سے نفرت میں بدل رہا ہے۔ یہی ہماری سیاست میں مقبولیت اور غیر مقبولیت کے درمیان خط کھینچتا پیمانہ ہے۔ بڑے لوگ تو چلے جاتے ہیں قائد اعظم اور مائوزے تنگ کی مثالیں لیں ان کے افکار تو موجود ہیں ۔ان کی روشنی میں سب کو ساتھ لے کر چلیں ماضی کے بائیں بازو والے اب معروضی سوچ رکھنے والے اعتدال پسند روشن خیال وفاق پرست جہاں بھی ہیں سیاسی حلقوں میں غیر سیاسی قوتوں میں انہیں ساتھ ملائیں اپنی طاقت کا دائرہ وسیع کریں لوگوں دل جیتیں اپنے دوستوں کو پہچانیں‘ دشمنوں کو جانیں ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں اچھی ذہین اور صالح قیادت میسر نہیں آئی۔ اس لئے ہم بھٹک رہے ہیں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں۔کوئی تو ایسا راستہ ہو گا کوئی ایسا نظام کہ اس ملک سے کوئی ان کا مستقبل نہ چھین سکے کوئی ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی کوئی ایسی زمین ہموار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہا کہ سچائی کا پودا تناور درخت بن جائے کوئی ایسا لیڈر کیوں پیدا نہیں ہو رہا جس کی کشش سب کو یکجا کر سکے یہ تو سب نفرت کے بیج بو رہے ہیں ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ نفرت کی ان دیواروں کو گرنا چاہیے۔ یہ لیڈر اپنی پہاڑ جیسی انائوں پر چڑھ کر ایک دوسرے کو حقارت سے للکار رہے ہیں۔ حالات اور پیش آنے والے واقعات نے ایسے سوالوں کو جنم دیا ہے جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں ہم نے آصف زرداری کو جیل سے ایوان صدر جاتے دیکھا ہے دو تہائی اکثریت رکھنے والا نواز شریف ایوان وزیر اعظم سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے اور میں 33سال پہلے کے اس منظر کو کیسے بھول کستا ہوں جب گیارہ سال کے غیر جمہوری اور غیر نمائندہ طرز کے غلبے کے بعد جس میں پیپلز پارٹی کے لئے کوئی گنجاش نہیں تھی لیکن یکسر منظر بدلنے اور اقتدار کی کنجی تھمانے کے بعد بھی فیصلہ سازوں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر ابھی کم عمر ہیں حکومت کا تجربہ نہیں ہے قطعی اکثریت نہیں ہے اس لئے دبائو میں رہیں گی پھر 58-2Bکی بے رحم تلوار چلا کر صدر غلام اسحق نے پوری حکومت کو چلتا کیا۔ آج جب میں نواز شریف کی نااہلی‘ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس کے پس منظر میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو کئی سوالات جا بجا جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی۔ پھر جا بجا ہمیں عمران خان کے غلط فیصلوں کے سبب خود اپنی پارٹی کو مسمار کرتے دیکھا۔آج ان کے دائیں بائیں رہنے والے ساتھی کچھ تائب ہیں اور کچھ غائب ہی۔ں جہاں مسلم لیگ ن سمیت پی ڈی ایم کی جماعتیں 16ماہ کی کارکردگی کے نتیجے میں اپنی تمام سیاسی اثاثہ گنوا بیٹھی ہیں۔ وہاں 9مئی کے واقعات نے عمران خان سے جیتا ہوا میچ چھین لیا ہے۔ اس وقت نگران حکومت میں فوج کے سپہ سالار کا کردار سب سے اہم ہیں اور کچھ کر گزرنے کی امنگ نظر آتی ہے ان کا ڈنڈا چلنا شروع ہوا اور کچھ مثبت اشارے بھی اجاگر ہو رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر پاکستان کی دگرگوں معیشت کو سہارا دینے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ہیں اگر الیکشن ہوئے جس کا امکان ابھی 100فیصد نہیں تو کیا اگلی منتخب حکومت میں بھی جنرل عاصم منیر اپنے ایکشن کو اسی طرح جاری رکھ سکیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 24کروڑ عوام جس طرح مہنگائی اور مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں اس سے باہر نکلنے کے لئے راست اقدام کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ثابت ہو گیا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں مافیاز کی موجودگی کرپشن‘ ذاتی مفادات عام لوگوں کے لئے ولن ثابت ہوئے ہیں۔صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ اس نظام کو جو لیڈر کو برہمی اور عوام کو شودر بناتا ہے ختم کر دیں ورنہ یہ نظام ہم سب کو مٹا دے گا۔عوام کو کچھ نہیں صرف ریلیف چاہئے۔