غامدی صاحب کے تصورِ عقل و فطرت پر پچھلے کالم میں بات ہو چکی۔ اس تصور کا بہت گہرا اثر ان کے تصورِ شریعت پر پڑا ہے۔ اگرچہ غامدی صاحب کے شارحین یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ غامدی صاحب نے فطرت اور شریعت کے تعلق کے بارے میں فرمایا ہے وہ فقہائے کرام اور اہلِ علم کے عمومی موقف سے صرف تعبیر میں مختلف ہے اور یہ گویا "محض نزاعِ لفظی" ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اس اختلاف نے غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کو بالکل ایک الگ اور ممیز تشخص عطا کیا ہے۔ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں: 1۔ فقہائے کرام کے نزدیک شریعت نے پوری زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے ، کہیں اس نے نصوص کی مختلف دلالات کے ذریعے اور کہیں اصول و قواعد عطا کرکے اور اسی لیے زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے ، نہ کبھی ہوگا ، جس کے لیے "شرعی حکم"نہ ہو۔ اس کے برعکس غامدی صاحب کے نزدیک دین کی رہنمائی کا غالب حصہ فطرت کے ذریعے دیا گیا ہے اور شریعت نے تو صرف گنتی کے چند احکام دیے ہیں۔ بار بار وہ یہی تو کہتے ہیں کہ "شریعت کو فقہ کے انبار سے نجات دلانے کی ضرورت ہے "، حالانکہ جسے وہ "شریعت" کہتے ہیں وہ دراصل ان کی "فقہِ شریعت" ہی ہوتی ہے۔ 2۔ فقہاے کرام "شرعی حکم" کیلئے "خطاب الشارع" ضروری سمجھتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکام کا غالب حصہ وحی کے بغیر ہی "براہ ِراست" نفس ِانسانی کو ودیعت کیا گیا ہے۔ 3۔ جہاں بظاہر نصوص میں حکم نہ ہو ، تو غامدی صاحب کا موقف ہوتا ہے کہ "یہاں شریعت خاموش ہے " اور یہ کہ "یہ معاملہ عقل ِ انسانی پر چھوڑا گیا ہے " اس کے برعکس فقہائے کرام ہر معاملے کے حکم کو کسی نص سے ہی ( دلالات یا قیاس و استحسان اور استدلال و استنباط کے مختلف طریقوں کے ذریعے) مرتبط کرتے ہیں۔ "اباحتِ اصلیہ" کے مسئلے کو ہی لیجیے۔ فقہائے کرام پہلے نصوص سے استنباط کے تمام طرق exhaust کرلیتے ہیں اور اس کے بعد "آخری دلیل" کے طور پر اباحتِ اصلیہ کی طرف آتے ہیں، پھر یہ فقہائے کرام اباحت ِ اصلیہ کو فطرت کے کامل شعور کی بنیاد پر نہیں بلکہ مختلف نصوص کی بنیاد پر مانتے ہیں ، جیسے ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (وہی ہے جس نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے وہ سارا کچھ جو زمین میں ہے)۔ نتیجتاً غامدی صاحب کا پہلا مفروضہ "اباحت" کا ہوتا ہے اور اسی لیے وہ ہمیشہ بار ثبوت دوسروں پر ڈالتے ہیں ، جبکہ یہ فقہائے کرام پہلے سارا بار خود اٹھاتے ہیں اور اس کے باوجود انھیں حرمت کی دلیل نہ ملے تو وہ اباحت کے قائل ہوجاتے ہیں۔ یہ approach اور paradigm کا بالکل ہی بنیادی اختلاف ہے۔ غامدی صاحب کے اس تصورِ شریعت کا موازنہ ان کے "استاذ امام" مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے تصورِ شریعت کے ساتھ کرنا بھی ضروری ہے۔ باقی تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے میں صرف ایک بنیادی سوال سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ مولانا اصلاحی صراحت کے ساتھ "بدیہیاتِ فطرت" کو "شریعت کا واضح تر حصہ" قرار دیتے ہیں، جبکہ غامدی صاحب "بیانِ فطرت" کو شریعت سے الگ دائرہ قرار دیتے ہیں۔ یہ صرف احکام کی placement کا مسئلہ نہیں، بلکہ تصور کے بنیادی اختلاف کی بات ہے۔ مجھے یہاں اس بحث میں نہیں جانا کہ اس معاملے میں فقہائے کرام "صحیح " ہے یا غامدی صاحب کا، یا یہ کہ ان کا تصور صحیح ہے یا ان کے استاذ امام کا۔ میرا مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ غامدی صاحب کا موقف امت مسلمہ کے عمومی موقف سے بھی "مختلف" ہے اور خود اپنے استاذ امام کے موقف سے بھی۔ بحث اب اس موڑ تک آگئی ہے جہاں "اجتہاد" اور "رائے کی آزادی" پر بحث ضروری ہوگئی ہے۔ غامدی صاحب کا اجتہاد کے متعلق فقہائے کرام کے موقف سے دو بنیادی امور میں مختلف ہے: 1۔ یہ کہ غامدی صاحب کے برعکس فقہائے کرام یہ مانتے ہی نہیں کہ "عقل و فطرت کی روشنی میں راے قائم کرنا "اجتہاد ہے، بلکہ ان کے نزدیک "شرعی حکم " کو اس کے مآخذ سے مستنبط کرنے کے لیے پوری کوشش صرف کرنے کا نام اجتہاد ہے، اور یہ معلوم حقائق ہیں کہ فقہائے کرام شرعی حکم کے لیے "خطاب الشارع" ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کے نزدیک اس شرعی حکم کے مآخذ کیا ہیں ؟ 2۔ یہ کہ غامدی صاحب نے نص کے فہم اور اس کی تعبیر کو "اجتہاد" کے مفہوم سے خارج کیا ہے جبکہ فقہائے کرام کے نزدیک یہ اجتہاد کا اولین اور بنیادی mode ہے۔ کسی بھی اصول فقہ کی کتاب میں "بیان "کے مباحث دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ محض لفظی نزاع کا نہیں بلکہ بنیادی تصور کے اختلاف کا ہے۔ اور باقی رہی ثمرہ کی بات تو صرف اس ایک امر پر غور کریں کہ غامدی صاحب نے "گنتی کے چند احکام" کے علاوہ "باقی سب کچھ" قانون سازوں اور ججز کی discretion پر چھوڑ دیا ہے جبکہ فقہائے کرام اسی discretion کو اصول و قواعد کے حدود میں رکھنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی اصول ِ قانون یا فلسفہ قانون کی کتاب میں discretion پر بحث ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ بڑے بڑے فلاسفہ قانون نے اس discretion کو محدود کرنے کے لیے کتنے جتن کیے ہیں اور آپ پھر اس دیو کو آزاد چھوڑ دینا چاہتے ہیں! اس پہلو سے غامدی صاحب کے فکر میں ایک سخت تناقض بھی پیدا ہوجاتا ہے لیکن اس پر بحث کسی اور وقت کریں گے۔ اب اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے وہ بنیادی سوالات میں سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن کے جواب سے غامدی صاحب کے تصور فطرت کی صحیح تفہیم ممکن ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ فیصلہ آسان ہوجاتا ہے کہ کیا جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ محض پرانی بات کو نئے انداز میں کہنے کی عادت ہے یا واقعتاً وہ ایک الگ اور مستقل موقف رکھتے ہیں۔ 1۔ کیا کسی شے یا کسی فعل کا اچھا یا برا ہونا اس شے یا فعل کی ذاتی خصوصیت ہے ؟ 2۔ اگر ہاں،تو کیا اس ذاتی خصوصیت کو انسانی عقل یقینی طور پر پہچان سکتی ہے ؟ 3۔ اگر دوسرے سوال کا جواب بھی ہاں میں ہے تو کیا عقل کا یہ فیصلہ خدا کا حکم قرار پاتا ہے ؟ 4۔ اگر تیسرے سوال کا جواب بھی ہاں میں ہے تو پھر وحی کی ضرورت کیا ہے ؟ چوتھے سوال کو اہلِ فلسفہ یوں پیش کرسکتے ہیں کہ فلاسفہ کو انبیاء کی کیا ضرورت ؟ غامدی صاحب ہی کا ایک پرانا شعر یاد آگیا ! آتی تو آسماں سے ہے ، کیا جانیے مگر ابلیس کی صدا کہ نوائے سروش ہے ! اوپر مذکورہ سوالات کے جوابات دیتے وقت یہ شعر بھی مد نظر رکھیں اور مان لیں کہ اس کا اطلاق صرف صوفیہ کو ہونے والے القا پر ہی نہیں ہوتا بلکہ "عقل و فطرت کی رہنمائی"پر بھی ہوتا ہے۔