ملک میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی لہر سے ایک بار پھرداخلی سلامتی کا معاملہ بنیادی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ وفاق اور صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری آئندہ ہونے والے انتخابات کے عمل کو شفاف اور آزادانہ طور پر ممکن بنانا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال تسلی بخش ہو۔ اس ضمن میں تین اکتوبر کو نگراں وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سمیت متعلقہ وزرا،وزرائے اعلٰی اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے سربراہوں نے شرکت کی ۔ اس اجلاس میں کئے جانے والے فیصلوں میں سب سے اہم فیصلہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے ا نخلاء سے متعلق ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بارہا اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر یہی تارکین وطن ملوث ہو تے ہیں۔ چنانچہ اب اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔ اس فیصلے کے مطابق تمام غیر قانونی تار کین وطن کو اس ماہ کی اکتیس تاریخ تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے ۔اس کے بعد ان کی ریاست بدری کے لئے طاقت کا استعمال کیا جائیگا۔داخلی سلامتی کے حوالے سے کیا جانے والا یہ درست فیصلہ اگرچہ بڑی تاخیر اور بعد از خرابیء بسیار کیا گیا ہے مگر اسے موئثر اور قابل عمل بنانے کے لئے جو مہلت تجویز کی گئی ہے وہ اس اہم اور انتہائی حساس معاملہ کے لئے بہت ناکافی ہے ۔ 1979 میں افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد سے حکومت مخالف افغانیوں نے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ لی۔ اس وقت کی حکومت پاکستان نے اپنی سیاسی ا ور عسکری حکمت عملی کے زیر اثر انہیں نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ انہیں ریاستی مہمان قرار دیا گیا ۔ابتدا میں یہ مہاجرین خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں قائم کئے گئے کیمپس تک محدود رہے تاہم کسی واضح پالیسی کی عدم موجودگی اور مہمان نوازی کے غیر ضروری اور غیر محتاط اظہار کے باعث یہ پورے ملک میںپھیل گئے جس سے پاکستان میں معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی نوعیت کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔ اس ضمن میں متعلقہ اداروں کی چشم پوشی اور مجرمانہ غفلت کو بھی قابل گرفت ہونا چاہیئے جسے اب تک نظر انداز کیا گیا ۔ افغان۔ روس جنگ کے دوران ایک بڑی تعداد ایران میں بھی پناہ گزیں ہوئی مگر وہاں حکومت کی سخت پالیسی کے باعث ان کی سکونت مہاجر کیمپس تک محدود رہی جس کے باعث وہاں ان کی موجودگی اور پھر ان کی واپسی آسان رہی۔ جب کہ پاکستان میںافغان مہاجرین کی صورتحال بالکل مختلف، پیچیدہ اور مشکل نوعیت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپور ٹ کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد تقریبا بیالیس لاکھ ہے جس میں سے محض 14 لاکھ کے پاس مہاجرین کے طور پر رجسٹریشن موجود ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد افغان سٹیزن کارڈ کے ساتھ موجود ہیں اور تقریبا بیس لاکھ افغان کسی ثبوت اور قانونی کارروائی کے بغیر برسہابرس سے پاکستانی میزبانی سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر نے پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے جائیدادیں خرید لی ہیں اورکاروبار جما لئے ہیں۔پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی حاصل کرلئے ہیں۔دو نسلیں یہاں پیدا ہوئیں ،جوان ہوئیں ،تعلیم اور روزگار حاصل کئے ۔سیاسی اور سماجی رابطوں اور رشتوں کو مزید مستحکم کیا اور وہ پوری طرح مقامی سماج میں گھل مل کر اپنی سیاسی ،سماجی اور معاشی حیثیت کو مستحکم کر چکے ہیں اور جن کا واپس جانا اب ممکن نہیں ہے۔یہ صورتحال خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی بعض سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات کے حق میںبھی ہے لہذا وہ بھی ان کی پاکستان میں مستقل سکونت پر معترض نہیں ہیں ۔ تاہم غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو ، ان کا تعلق خواہ کسی بھی ملک سے ہو ، انہیں ان کے ملک واپس بھیجنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر منشیات ، اسلحہ فروشی ، اغوا ء برائے تاوان ، دہشت گردی جیسی مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ان کی واپسی کے لئے حکومت پاکستان کا موجودہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے نہ تو غیر قانونی ہے اور نہ ہی غیر اخلاقی لہذا اس کے نفاذ پر افغان حکومت کے ترجمان کا بیان نامناسب ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق پاکستان کی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ جب تک افغان مہاجرین اپنی مرضی سے اور پر امن طریقے سے پاکستان نہ چھوڑیں انہیں پاکستان کو برداشت کرنا چاہیئے۔ حکومت پاکستان اپنے انتظامی معاملات کی بہتری کے لئے جو اقدامات مناسب ، موزوں اور ضروری سمجھتی ہو ، اختیار کرنے کا حق رکھتی ہے۔پاکستان کی حکومت اور عوام نے چالیس سال سے زائد حق میزبانی ادا کیا ہے ۔اس احسان کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیئے۔امارت اسلامی افغانستان کے حکمرانوں کو اس کی آگہی یقینا ہوگی انہیں اس کا پاس رکھنا چاہیئے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی ایک غیر محفوظ اور دشوار گزار طویل سرحد موجود ہے ۔دونوں اطراف لسانی، قبائلی اور سماجی روابط کی ایک تاریخ موجود ہے ۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کا تجارتی راہداری کا تعلق بھی ہے جو دونوں ملکوں کے لئے معاشی اہمیت کا حامل بھی ہے۔غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے معاملہ کو دونوں حکومتوںکے درمیان کشیدگی کا باعث نہیں بننا چاہیئے۔ حکومتی اور سیاسی سطح پر اسے دانائی کیساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی قسم کی عجلت ،جذباتیت اور ناقص منصوبہ بندی اس معاملہ کے حل کئے جانے میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ احتیاط اور شدید احتیاط کی ضرورت ہے ۔ پاکستان جن معاشی ، سیاسی اور انتظامی بحران کا شکار ہے اس میں لیا جانے والا یہ مشکل مگر ناگزیر فیصلہ اسی وقت قابل عمل اور سودمند ہو سکتا ہے جب اس کے سارے پہلوئوں ، نتائج اور عواقب پر غور کرتے ہوئے قابل عمل بنایا جائے۔غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی بالخصوص افغانیوں سے متعلق حکمت عملی کو علیحدہ سے اختیار کیا جائے ۔ ان کی واپسی کی مہلت میں قابل عمل اضافہ کیا جائے اسی کے ساتھ اس عمل کو باعزت بنائے جانے میں بھی کسی طرح کی غفلت نہیں ہونی چاہیئے۔وگرنہ چالیس بیالیس سال کی مہمان نوازی دشمنی کی بنیاد نہ بن جائے۔بس یہی احتیاط وقت کا تقاضہ ہے۔