"جھن جھناک!" نوکر کے ہاتھ سے تلوار دور جا گری! ابن صفی کے ناول "دہرا قتل" کا یہ پہلا جملہ ہے۔یہ ان کا پہلا ناول تھا جو میں نے تقریباً 12 سال کی عمر میں پڑھا۔ اس پہلے جملے نے ہی مجھے ان کا اسیر کردیا تھا اور ناول ختم کیے بغیر اٹھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ میرے چچا مرحوم اقبال احمد "نیا رخ" ڈائجسٹ باقاعدگی سے گھر لاتے تھے، یہ ناول اس ڈائجسٹ کے آخری صفحات پر شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد ہر مہینے کی ابتدا میں اس ڈائجسٹ کا انتظار رہتا۔ کچھ عرصے بعد جب ڈائجسٹ پرانا ہوجاتا تو اس سے ابن صفی کا ناول الگ کرکے، اور پھر جب کئی ناول جمع ہوجاتے تو ان کی بائنڈنگ کراکے شیلف میں سجالیتا۔ کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ وہ عمران سیریز جسے ہم مظہر کلیم کا کارنامہ سمجھ رہے تھے وہ بھی ابن صفی کی تخلیق تھی۔ اب پاکٹ منی سے ابن صفی کی عمران سیریز کے ناول خریدے جاتے اور بائنڈنگ کرائی جاتی۔ اس کام میں ماموں خلیل احمد نے بھرپور ساتھ دیا۔ پھر ہم نے دیگر کزنز اور دوستوں کو بھی ابن صفی کے ناول پڑھوانے شروع کردیے۔ بارہا ایسا ہوا کہ جو ناول ہم نے "خون پسینے کی پاکٹ منی" لگاکر خریدے ہوتے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے اور ہم پھر سیٹ مکمل کرنے کے چکر میں پڑ جاتے۔ کتنی ہی دفعہ ابن صفی کے ناولوں کا سیٹ مکمل کیا گیا اور پھر ادھورا ہوگیا۔ آخری دفعہ 2019ء میں اس سیٹ کو مکمل کیا ہے جو تا حال مکمل ہے، اگرچہ میرے بچوں نے ابن صفی کو پڑھنا اور اپنے دوستوں کو پڑھوانا شروع کیا ہے اور اب پھر سیٹ ادھورا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ان ناولوں میں ایسا کیا ہے کہ لوگ زندگی بھر ان کے سحر سے نکل نہیں پاتے؟ اس کے جواب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ پلاٹ، سسپنس، تجسس، طنز و مزاح کی چاشنی، ادبیت، مکالمے، منظر نگاری اور بہت کچھ۔ ان ناولوں کی ایک بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ قاری کی قوتِ متخیلہ کو متحرک کردیتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے ابن صفی کے ناول پڑھ کر خود کہانیاں اور ناول لکھنا شروع کیے۔ خود اس ناچیز نے پہلا ناول 14 سال کی عمر میں لکھا تو یہ ابن صفی کو پڑھنے کا ہی نتیجہ تھا۔ میرے بیٹے یحییٰ نے اسی عمر میں پہلا ناول لکھا اور اب دوسرا بھی لکھ چکا ہے، تو یہ بھی ابن صفی ہی کا کمال ہے۔ ابن صفی کے ناولوں، بلکہ ان کے پورے پروجیکٹ، کا مقصد قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہد کا شعور پیدا کرنا تھا۔ نام نہاد "ادب عالیہ" کے بجائے خصوصاً جاسوسی ناولوں کی صنف کو ابن صفی نے کیوں چنا؟ اس کے جواب میں وہ خود "میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟" میں لکھتے ہیں: "بہت ہی بھیانک قسم کے ذہنی ادوار سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہوں، ورنہ میں نے بھی آفاقیت کے گیت گائے ہیں،عالمی بھائی چارے کی باتیں کی ہیں، لیکن 1947ء میں جو کچھ ہوا، اس نے میری پوری شخصیت کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ سڑکوں پر خون بہہ رہا تھا اور عالمی بھائی چارے کی باتیں کرنے والے سوکھے سہمے اپنی پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے تھے۔ ہنگامہ فرو ہوتے ہوتے ہی پھر پناہ گاہوں سے باہر آگئے اور چیخنا شروع کردیا:"یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ بہت برا ہوا۔" لیکن ہوا کیوں؟ تم تو بہت پہلے سے یہی چیختے رہے تھے، تمہارے گیت دیوانگی کے اس طوفان کو کیوں نہ روک سکے؟ میں سوچتا رہا۔ آخر کا ر اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی میں جب تک قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہوگا، یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام کرنا سیکھے اور جاسوسی ناول کی راہ میں نے اسی لیے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کیلئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور انہیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں۔ فریدی میرا آئیڈیل ہے جو خود بھی قانون کا احترام کرتا ہے اور دوسروں سے قانون کا احترام کرانے کیلئے اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔" جاسوسی ناولوں کا آغاز کیسے کیا، اس کے بارے میں اپنے مضمون "بقلمِ خود" میں لکھتے ہیں: "ایک ادبی نشست میں کسی بزرگ نے کہا: "اردو میں صرف جنسی افسانوں کی مارکیٹ ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں بکتا۔" میں نے کہا: "یہ درست ہے لیکن کسی نے بھی جنسی لٹریچر کے سیلاب کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔"کسی طرف سے آواز آئی: "یہ ناممکن ہے جب تک کوئی متبادل چیز مقابلے میں نہ لائی جائے۔"متبادل چیز؟ میں نے سوچا۔" یہیں سے "جاسوسی دنیا" کی بنا پڑی۔ ابن صفی کے ناولوں کا نظریاتی پہلو بھی بہت اہم ہے۔ صہیونیوں کی سازشوں کو بھی انہوں نے موضوع بنایا (ڈاکٹر النگھم اور "تین سنکیوں" کے کردار اس ضمن میں قابلِ ذکر ہیں)، لیکن خاصے کی چیز عمران سیریز کا خاص نمبر "پاگلوں کی انجمن" ہے جو پہلی دفعہ جون 1970ء میں شائع ہوا۔ اس میں ایک دلچسپ کردار استاد محبوب نرالے عالم نے انجمن کے سربراہ "مہاپاگل" کو ایک نظم سنائی جس میں "مساواتِ احمریں"، "لال پری" اور دیگر اشارات کے ذریعے ابن صفی نے اس وقت "اسلامی سوشلزم" کی برپا کی ہوئی نظریاتی کشمکش کے بارے میں اپنا پیغام دیا ہے۔ مہاپاگل کا خیال یہ تھا کہ وہ "خلائی دور کے مہدی" ہیں جنہیں خدا نے ایک خاص مشن پر بھیجا ہے اور ان کا دعوی تھا کہ ان کو خدا کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ نظم ان کو سنائی گئی اور ناول میں بعد میں بتایا گیا کہ نظم عمران نے استاد محبوب نرالے عالم کو رٹائی تھی: اک دن جلالِ جبّہ و دستار دیکھنا اربابِ مکر و فن کو سرِ دار دیکھنا سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات ہم بھی کھلے تو جوششِ گفتار دیکھنا قرآں میں ڈھونڈتے ہیں مساواتِ احمریں یارو! نیا یہ فتنہ اغیار دیکھنا وردِ زباں ہیں خیر سے آیاتِ پاک بھی ہے اَہرَمن بہ خِرقہ و پندار دیکھنا کل تک جو بت کدے کی اڑاتا تھا دھجیاں اس کے گلے میں حلقہ زنار دیکھنا لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں ہوتے ہیں کتنے لوگ گنہگار دیکھنا فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا! ابن صفی جانتے تھے کہ قانون کی حکمرانی کی منزل محض جاسوسی ناولوں کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے انہوں نے تجویز کیا تھا: "ملکی قوانین کی تعلیم کا انتظام عوامی پیمانے پر ہونا چاہیے۔ ہمارے ماہرینِ تعلیم نے ابھی تک اس پر دھیان نہیں دیا حالانکہ یہ بے حد ضروری ہے۔ ایسا نصاب وضع کیا جانا چاہیے کہ ابتدائی مدارج سے ہی قانون کی تعلیم شروع کی جاسکے۔ جب قانون سے لاعلمی قانون شکنی پر سزا سے نہیں بچا سکتی، تو پھر یہ ہر آدمی کا حق ٹھہرتا ہے کہ اسے کلی طور پر قوانین سے آگاہی حاصل کرنے کی سہولت بہم پہنچائی جائے۔ کیا اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جاسکے گا؟" آج اس عظیم ناول نگار کی تاریخِ پیدائش بھی ہے اور تاریخِ وفات بھی۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو!