آج کل روزانہ چیئرمین پیپلزپارٹی کا بیان آتا ہے کہ فوری الیکشن کروائے جائیں… ہمیں الیکشن کی تاریخ دی جائے… الیکشن کروانا ملکی مفاد میں ہے… زرداری صاحب نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ورنہ… پھر کہا جاتا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مسئلہ ن لیگ سے ہے… یا یہ کہا جاتا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہر ایک کیلئے ایک جیسی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ سمجھ سے باہر ہے کہ بلاول کو ایک دم سے الیکشن کی یاد کیوں ستانے لگی ہے؟ کیا اُسے علم ہو چکا ہے کہ اس وقت ن لیگ کے ساتھ ڈیلنگ کنفرم ہو چکی ہے، یا شاید یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ حالات ن لیگ کے لیے ساز گار بنائے جا رہے ہیں جبکہ اُن کا وزیر اعظم بننے کا خواب ادھورا رہنے والاہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ واقعی نہ صرف پیپلزپارٹی کے لیے تشویشناک ہے بلکہ ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ خیر سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈکیا ہوتی ہے، اس کے آسان معنی یہ ہیںتمام سیاسی جماعتوں کو ایک جیسا ماحول فراہم کیا جائے، کسی سیاسی جماعت کے لیے Favourtismکو فروغ نہ دیا جائے اور کسی بھی سیاسی جماعت کو اوپر لانے کے لیے لابنگ نہ کی جائے۔ اس کے علاوہ یہی اصول ریاست کے شہریوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ ریاست رنگ، نسل، عقیدہ، دولت یا کسی بھی بنا پرشہریوں کے درمیان امتیاز نہ برتے، کھیل کا ایک اصول ہو جس کا اطلاق سب فریقین پر یکساں کیا جائے یعنی وہ ساحر آنکھیں سب شہریوں پر اٹھیں، وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ سب کو سامانِ نظارہ فراہم کریں۔لیکن افسوس پاکستان میں روزِ اول سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا کوئی خاص رواج نہیں رہا،ہر جماعت، ہر شخصیت کسی نہ کسی کی منظور نظر رہی ہے، یہاں نہ تو تمام مسالک کو ایک جیسا سمجھا گیا، نہ تمام صوبوں کو ایک جیسا ماحول فراہم کیا گیا اور نہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک جیسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی گئی۔ تبھی وطن عزیز 1971ء میں دو لخت ہوگیا۔ اور حد تو یہ ہے کہ آج بھی ہم باز نہیں آرہے اور مسلسل کسی ایک جماعت یا ایک شخصیت کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ملک میں بے چینی کی فضاء پیدا ہو رہی ہے، ملک میں مخلص قیادت اور مخلص سیاسی کارکنان میں نفرت کا عنصر بڑھ رہا ہے، اور پھر ایسا نہیں ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، بلکہ یہ صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ بہرحال آج بھی ویسا ہی ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ ہمیں خبر دی گئی کہ ادارہ غیر سیاسی ہو گیا ہے ،گویا ساقی نے توبہ کر لی ہے اور غیر سیاسی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے گی، نہ کوئی لاڈلا رہے گا، نہ کوئی لاڈلا نواز۔سادہ لفظوں میں نواز شریف پر عائد تمام پابندیاں ختم ہو جائیں گی، وہ سیاست میں براہ راست حصہ لیں گے، اپنی پارٹی کی صدارت کریں گے، الیکشن لڑیں گے اور اگر ان کی جماعت انتخاب جیت گئی تو چوتھی دفعہ وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھائیں گے۔ جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہوگی کہ چیئرمین تحریک انصاف پر سے تمام سیاسی و غیرسیاسی مقدمات ختم کر دیے جائیں گے، 9مئی کے واقعات کو از سر نو بھلا دیا جائے گا، اور تمام گرفتار قیادت اور کارکنوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ اور دوبارہ سیاست میں حصہ لینے کے لیے اُنہیں صاف راستے مہیا کیے جائیں گے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہوگی کہ اُنہیں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اُنہوں نے 15سال تک سندھ کے لیے کیا کیا ہے؟ اور نہ ہی یہ پوچھا جائے گا کہ اس دوران اُنہوں نے کتنی کرپشن کی۔ جبکہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ خیر یہ تو تمہید تھی کہ آپ کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے بارے میں سمجھا سکوں مگر یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اگر بلاول کے خدشات درست ہیں اور واقعی ن لیگ کے لیے سارے راستے ہموار کیے جارہے ہیںتو یہ بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یقین مانیں! یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جن ممالک نے اپنے شہریوں کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی وہ ریاستیں اور ان میں بسنے والی اقوام آج ترقی یافتہ کہلاتی ہیں۔ میرے خیال میں جمہوریت کی بدلیاں مخصوص چھتوں پر نہیں برستیں۔ جمہوریت سیاسی شراکت داروں میں تفریق کی قائل نہیں۔ چونکہ قومی سطح پر ہم اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ جمہوری طرزِ حکومت ہی ہمارے لیے بہترین ثابت ہو سکتا ہے ،چنانچہ یہ ہماری قومی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس معاملے میں خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ایسا ماحول تشکیل دیں، جس میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکے۔ خود سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں بہت کچھ سیکھنا اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔ انہیں اس اعتماد کی سخت ضرورت ہے کہ سیاست میں مد مقابل جماعتوں کیساتھ اینٹ گھڑے کا بیر روا نہیں۔ سیاسی اختلاف درحقیقت حل کی تجاویز اور نظریے کے اختلاف پر مبنی ہوتے ہیں‘ ورنہ اصولی طور پر سبھی جماعتوں کا رْخ ایک ہی منزل کی جانب ہوتا ہے۔ بہرکیف پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کو خوش ہونا چاہیے کہ انہیں ایک ایسی قوم ملی ہے، جس میں رہنمائوں کے حق میں بہت لچک پائی جاتی ہے ‘ مگر اس کا بدل اس قوم کو مسلسل مایوس کرنا نہیں ہو سکتا۔اعتماد کا تقاضا تو یہ ہے کہ رہنما زیادہ محتاط اور قومی ذمہ داری کے احساس کا مظاہرہ کریں۔ جہاں تک لیول پلیئنگ فیلڈ کے نہ ہونے کی شکایت کی بات ہے تو سیاسی جماعتوں نے یہ حالات خود ہی پیدا کیے ہیں اور اب خود ہی ان کو سنوار سکتی ہیں۔ جب سیاسی قائدین میںا یک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا وصف پیدا ہو گا تو سمجھئے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ پیدا ہو چکا۔ یہ رعایت کسی سے طلب کرنے کے بجائے سیاسی قیادت کو خود یہ فضا پیدا کرنے کیلئے غور و فکر اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کسی اچھی چیز کی اہمیت کا بہترین اندازہ اس کی کمیابی یا نایابی کے حالات میں ہوتا ہے ؛چنانچہ سیاسی بقائے باہمی کی اہمیت کو سمجھنے اور سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈ تیار کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔ اور رہی بات ن لیگ کے لیے تمام راستے صاف کرنے کی تو مقتدرہ قوتیں شاید یہ بھی جانتی ہوں کہ جس شخص کو اقتدار سونپے جانے کی خبریں آرہی ہیں ،وہ پہلے بھی تین بار وزیر اعظم بن چکا ہے اور ملک قرضے میں بلکہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’گوڈے گوڈے‘‘ قرضے میں ڈوب چکا ہے اور اس 16ماہی حکومت کی کارکردگی ہی کو دیکھ لیں کس طرح سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے، لہٰذاوقت کا تقاضا یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک جیسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے۔ ورنہ ہم سب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور ملک مزید خرابی کی طرف چلا جائے گا!