بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ معیشت" کے باب میں غامدی صاحب فرماتے ہیں:"مسلمان یہ زکوٰۃ ادا کردیں ،تو ان کا وہ مال جس کے وہ جائز طریقوں سے مالک ہوئے ہیں، اللہ و رسول کی طرف سے مقرر کسی حق کے بغیر ان سے چھینا نہیں جاسکتا، یہاں تک کہ اسلامی ریاست اس زکوٰۃ کے علاوہ اپنے مسلمان شہریوں پر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس بھی عائد نہیں کرسکتی۔"(ص 134) 2018ء کے ایڈیشن میں قانونِ معیشت کی دفعات میں بھی یہ شق نہیں پائی جاتی، البتہ "قانونِ سیاست" کے ضمن میں دینی فرائض میں یہ دفعہ، ذرا سی ترمیم کے ساتھ، موجود ہے:"اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں یہ سنت قائم کی ہے کہ یہی تنہا ٹیکس ہے جو مسلمانوں پر عائد کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ریاست کے مسلمان شہریوں میں سے ہر وہ شخص جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، اپنے مال، مویشی اور پیداوار میں مقررہ حصہ اپنے سرمائے سے الگ کرکے لازماً حکومت کے حوالے کردے گا اور حکومت دوسرے مصارف کے ساتھ اس سے اپنے حاجت مند شہریوں کی ضرورتیں، ان کی فریاد سے پہلے، ان کے دروازے پر پہنچ کر پوری کرنے کی کوشش کرے گی۔"(ص 491)ترمیم کی بات درج ذیل عبارت سے مزید واضح ہوجاتی ہے: " زکوٰۃ کے علاوہ، جس کی شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے مختلف اموال میں مقرر کردی ہے، وہ نہ مسلمانوں پر ان کی رضامندی کے بغیر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس عائد کرسکتے ہیں، نہ ایک مٹھی بھر گندم، ایک پیسہ، ایک حبہ ان کے اموال میں سے، کسی بھی مد میں بالجبر لینے کی جسارت کرسکتے ہیں۔" (ص 494) بہ الفاظِ دیگر، ممانعت صرف "مسلمانوں پر ان کی رضامندی کے بغیر " ٹیکس عائد کرنے پر ہے۔ اگر مسلمانوں کے منتخب نمائندے قانون سازی کے ذریعے ٹیکس لگائیں، تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اب کہاں وہ بات کہ " اسلامی ریاست اس زکوٰۃ کے علاوہ اپنے مسلمان شہریوں پر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس بھی عائد نہیں کرسکتی"، اور کہاں یہ گنجائش کہ مسلمانوں کی رضامندی سے ان پر مزید ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں! مزید وضاحت کے لیے"اشراق" کی پرانی فائلیں یا غامدی صاحب کا رسالہ "پس چہ باید کرد" اور اس کی شرح میں معز امجد صاحب کی توضیحات پڑھ لیں، یا مختصر لیکن دو ٹوک موقف کے لیے جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی کتاب "اسلام کیا ہے؟" ملاحظہ کرلیں۔ اس وقت غامدی صاحب کا موقف یہ تھا کہ اگر حکومت کو کسی ایمرجنسی میں مزید رقم کی ضرورت ہو، تو وہ شہریوں سے ایمرجنسی فنڈ کے لیے چندے کی اپیل تو کرسکتی ہے لیکن ٹیکس نہیں لگاسکتی! زکوٰۃ کو قانونِ معیشت سے نکال کر اور قانونِ عبادات میں ڈال کر بھی غامدی صاحب نے شاید غور نہیں کیا کہ اس عبادت کو حکومت کے حق کے ساتھ منسلک کرکے اور اسے ٹیکس قرار دے کر وہ ایک جانب حکومت کی جانب سے ٹیکس کی وصولی کو ایک قسم کا مذہبی تقدس فراہم کررہے ہیں اور دوسری طرف زکوٰۃ کے عبادت ہونے کے پہلو کو مسخ بھی کررہے ہیں، حالانکہ خود انھوں نے 2018ء کے ایڈیشن میں بھی "زکوٰۃ کی تاریخ" کا عنوان قائم کرکے زکوٰۃ اور صلوۃ کے تعلق اور انبیائے کرام کی تعلیمات میں ان کی حیثیت پر بحث کی ہے۔ حکومت کو مذہبی تقدس فراہم کرنے کی بات غلام احمد پرویز صاحب کے نظامِ فکر میں قابلِ فہم ہے ، لیکن غامدی صاحب کے "پوسٹ اسلامزم" میں اس کی گنجائش کیسے پیداہوسکتی ہے؟ چنانچہ اگلا سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کس تصورِ ریاست کے قائل ہیں؟ کہیں وہ ریاست کی ہمہ گیریت کی بات کرتے نظر آتے ہیں، تو کہیں اسے محض بہ امر مجبوری قبول کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں وہ ریاست کو فرد کی نیابت کرتے، اس کی مدد کرتے اور اس کی سرپرستی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ امور ان کے ارتقائی سفر کے مختلف مراحل کی صورت میں ہوتے، تو کم از کم اس پہلو سے میں اعتراض نہ کرتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب بھی "میزان" کے مختلف ابواب میں وہ ریاست کے ان مختلف تصورات کے قائل نظر آتے ہیں۔ اس لیے بات تضاد کی طرف چلی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2001ء کے ایڈیشن میں وہ قصاص کے معاملے میں مقتول کے ورثا کو اصل فریق قرار دیتے ہیں اور ریاست کو صرف نگران اور مددگار کی حیثیت دیتے ہیں: "قتل کی اس صورت میں اسلام کا قانون یہ ہے کہ اس میں اصل مدعی حکومت نہیں، بلکہ مقتول کے اولیاء ہیں۔"(ص 292)تاہم 2018ء کے ایڈیشن میں ریاست ہی اصل فریق بن چکی ہے:"اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ حکومت اگر کسی جگہ قائم نہ ہو اور قصاص کا معاملہ مقتول کے اولیاء ہی سے متعلق ہوجائے، تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کریں۔۔۔" (ص 621)یعنی پہلے موقف یہ تھا کہ اصل فریق مقتول کے ورثا ہیں لیکن اب مقتول کے ورثا ثانوی حیثیت اختیار کرگئے ہیں اور ان کی بات صرف وہاں ہوتی ہے جہاں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت نہ ہو! ایک اور مثال جرمانے کی سزا کی ہے جس پر غامدی صاحب نے الگ سے کہیں بحث نہیں کی ہے لیکن ایک مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے جواز کے قائل ہیں: "قید، تازیانہ، جرمانہ، ان سب سزاؤں میں دو باتیں پیشِ نظر ہوتی ہیں: ایک معاشرے کی عبرت، دوسرے آئندہ کے لیے مجرم کی تادیب و تنبیہ۔" (ص 616)۔اب سوال یہ ہے کہ اگر 2001ء میں وہ اس کے قائل تھے کہ حکومت مسلمان شہریوں سے زکوٰۃکے علاوہ کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکتی، تو وہ اس کے قائل کیسے ہوگئے تھے کہ حکومت کسی مسلمان شہری پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے؟ ٹیکس اور جرمانے کے تعلق کی طرف ان کی توجہ کیوں نہیں گئی؟ ٹیکس اور جرمانے کے درمیان کئی فرق ہوں گے لیکن جس امر مشترک کی طرف یہاں توجہ دلائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ریاست کا حق سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے ان دونوں کی ادائیگی ریاست کو کی جاتی ہے۔ (اور ہاں، یہ دونوں ریاست کے ہاتھ میں عوام کے استحصال کے اہم آلات ہیں۔) واضح رہے کہ یہاں دیت یا ارش کی مثال دینا غلط ہے کیونکہ دیت مقتول کے ورثا اور ارش مجروح کا حق ہے اور ان کی حیثیت ایک طرح سے تلافی کی ہے، جبکہ جرمانے اور ٹیکس کو ریاست کا حق سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے ان کی ادائیگی ریاست کو ہی کی جاتی ہے۔ کون سا حکم کس کے حق کے ساتھ متعلق ہے؟ یہ اس ساری بحث کا مرکزی سوال ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسی مرکزی سوال پر غامدی صاحب کوالجھنیں لاحق ہیں جس کی بنا پر ان کا پورا تصورِ زکوٰۃ ہی اندرونی تضادات کا شکار ہوگیا ہے۔