اْردوکے ہمارے مشہور شاعر چچا غالب تو ہر موقع پر یاد آتے رہتے ہیں۔ آج بھی نئے چیف جسٹس صاحب کی تعیناتی پر ان کا یہ شعر بے طرح یاد آیا: دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا پاکستان کے انتیسویں چیف جسٹس آف پاکستان اپنی عدلیہ کی اعلیٰ ترین اونچی مسند پر بیٹھ چکے ہیں۔ پچھلے 76 برسوں میں 28 چیف جسٹس آئے مگر انصاف کے معاملے میں لوگ پیاسے ہی رہے۔ ایسا نہ ہو کہ انصاف کے زخم بھرنے لگیں تو تب تک عدلیہ کے ناخن پھر سے بڑھ آئیں۔۔۔ اب تو لوگوں کے زخموں سے لہو رسنے لگا ہے۔ اب غمخواری کے سوا کوئی حل نہیں۔ افتخار محمد چوہدری صاحب جب عدلیہ بحالی تحریک کے رستے سے آئے تو لگتا تھا کہ اب ریاست ماں کے جیسی ہو گی۔ مگر وہ ایسا میدان چھوڑ کر گئے جہاں انصاف آج بھی آبلہ پا ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کا ڈھانچہ کچھ اس طرح ہے: سپریم کورٹ۔ ہائی کورٹ۔ سول کورٹس۔ کرمنل کورٹس۔ سپیشل کورٹس۔ فیڈرل شرعیہ کورٹس اور قاضی کورٹ وغیرہ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پچھلے 45 سال سے شعبہ قانون سے وابستہ ہیں۔ بطور وکیل انہوں نے 27 برس کام کیا۔ 2009 میں وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ 2014 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج بن گئے۔ 2019 میں صدرِ پاکستان عارف علوی نے ان کے خلاف اثاثے ظاہر نہ کرنے پر ریفرنس دائر کیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ نے اسے کالعدم قرار دیا۔ ان کی اہلیہ مقدمات کی پیشیاں بْھگتتی رہیں۔ بعد میں سابق وزیر اعظم قیدی نمبر 804 نے بھی مانا کہ ریفرنس دائر کرنا حکومتی غلطی تھی۔ آئین کی پچاسویں سالگرہ پر انہوں نے آئین کی دستاویز اٹھا کر کہا کہ اگر وہ آئین کا دفاع نہیں کر سکتے تو ان پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ حلف اٹھاتے وقت انہوں نے اپنی بیگم سرینا عیسیٰ کو پہلو میں کھڑے کئے رکھا۔ کم از کم یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اس سے پہلے امریکی عدالت میں یہ مثال دکھائی دی تھی۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے ذاتی پروٹوکول لینے سے منع کر دیا۔ جیسے یہ روایت توڑی ہے ایسے ہی انصاف قائم کریں۔ بطور چیف جسٹس انہوں نے فْل کورٹ بنچ تشکیل دیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اس کارروائی کو مختلف چینلز نے براہِ راست نشر کیا۔ وطنِ عزیز کے سب اداروں کی طرح عدالتی نظام میں بھی بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں بہت سے چیلنجز فائز عیسیٰ کے منتظر ہیں۔ سب سے اہم کام پسماندہ اور غریب عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینا اور انصاف بحال کرنا ہوگا۔ ریاست کے نظام اور انصاف کا ریاست کے عوام سے گہرا رشتہ ہے۔ خدا کرے ہماری عدلیہ میں تقسیم ختم ہو کر انصاف کا بول بالا ہو۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ صاحب سے عوام کا مطالبہ ہے کہ ہماری عدلیہ کا نظام جس سْست روی کا شکار ہے اس میں تیزی لائی جائے۔ فائز عیسیٰ نے پہلا کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کے حوالے سے سْنا۔ وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم میں سے کچھ نے اس کیس کے بارے میں سْن رکھا ہے کچھ پہلی بار سْن رہے ہیں۔‘‘ جسٹس عائشہ نے سوال کیا: ’’اس قانون کے تحت عدالت سے فریاد کی جا سکتی ہے۔ آپ اس پریکٹس کو کیسے متشکل کرتے ہیں؟‘‘ ملک کی عدالت عْظمیٰ کے از خود نوٹس لینے کے حوالے سے پارلیمنٹ نے اسے پابند کرنے کی کوشش کی۔ اس پر چیف جسٹس کی بجائے تین ججز شامل ہوں گے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کا کہنا تھا کہ میں اپنی انفرادی طاقت کو استعمال نہیں کرنا چاہتا تاکہ عدلیہ کا ادارہ مضبوط ہو۔ چیف جسٹس صاحب کافی دبنگ نظر آتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے کہا: عدل کے ایوانوں میں اب عدل کا ڈنکا بجے گا۔ پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔‘‘ وہ یہ بھول گئے کہ اسی عدلیہ سے پچاس روپے کے بانڈ پر اپنے بڑے بھائی جان کو علاج کی غرض سے انہوں نے ضمانت دی تھی۔ مگر عدلیہ ان سے سوال نہ کر سکی کیونکہ وہ قابل احترام ہیں۔ فائز عیسیٰ نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری انا بہت بڑی بن گئی ہے۔ ججز سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کو ماننا ہوگا۔ اس ملک میں کئی بار مارشل لا بھی لگے ہیں اس وقت 57000 کیس زیرِ سماعت ہیں۔‘‘ ایک سال کی اس قلیل مدت میں کس طرح اصلاحات ہوں گی؟ بہر کیف عوام کو پہلی بار عدالت کا ماحول دیکھنے کو ملا۔ اس سے پتہ چلے گا کہ کورٹ اور پارلیمنٹ کے اختیارات کیا کیا ہیں؟ واضح رہے کہ عدالت سے سوائے انصاف کے اور کچھ نہ تو کوئی مانگتا ہے اور نہ مانگنا چاہیئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے: ’’اختیار، اقتدار اور طاقت ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔‘‘ منصف کے کندھوں پر بڑی کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں بہت سے سیاسی مقدمات بھی التوا میں پڑے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین اگر اپنی چھوٹی چھوٹی باہمی رنجشوں کو عدالتوں میں گھسیٹنے کی بجائے باہمی طور پر حل کریں تو عدالت کا قیمتی وقت بچ سکتا ہے۔ عدلیہ کو اپنا وقت عوامی مسائل کے حل کے لیے وقف کرنا چاہیئے۔ آج کی اس کارروائی سے عوام کی جلتی ہوئی آنکھوں میں پھر سے اْمید کے جْگنو ٹمٹمانے لگے ہیں۔ لوگوں کو انصاف اسی طرح ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے جیسے ظلم۔ پاکستانی تارکین وطن کو نہ صرف ووٹ ڈالنے کا حق بلکہ انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت بھی ہونی چاہیئے۔ انصاف بہت ظالم ہوتا ہے، اس میں صرف اصول ہوتے ہیں، سیاست نہیں ہوتی۔ حلف برداری کسی بھی پیشے کی ہو خواہ ڈاکٹر ہوں، آرمی چیف ہوں یا چیف جسٹس اس کا تقدس آپ کے کندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔ اقبالؔ کا شعر آخر میں حاضرِ خدمت ہے: نگاہ بلند سْخن دلنواز جاں پْر سوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کاررواں کے لیے