ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ، جن کا تعلق ایک علمی ، ادبی اور سیاسی گھرانے سے ہے، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہونے کے ساتھ ایک معروف دانشور ادیب کے طور پر بھی مصروف اور متحرک نظر آتے ہیں ۔ ان کی حالیہ کتاب ، جسے اس کالم کا عنوان دیا گیا ہے ، ان کے ادبی اور علمی ذوق کی نمائندگی کرتی ہے۔ شخصیت نگاری ،خواہ وہ انٹرویو کی شکل میں ہویا خاکہ نگاری کی صورت ، ادب کی ایک مقبول اورمستقل صنف بن چکی ہے ۔ سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے اہل قلم نے اسے مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈ اکٹر فرید احمد پراچہ کی یہ کتاب اسی صنف سے تعلق رکھتی ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے تعلق کے حوالے سے مختلف سیاسی ،دینی ، سماجی،علمی اور ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ ذاتی دوستوں یہاں تک کہ ملنے والوں تک کو اہمیت دی ہے ۔ جس سے ان کی وسیع المشربی اور قلبی وسعت کا ادراک ہوتا ہے۔ اس کتاب میں سیاسی قائدین جن میں مولانا مودودی ،میاں طفیل،قاضی حسین احمد ، منور حسن،سراج الحق، پروفیسر غفور احمد ، پروفیسر خورشید احمد ،سید علی گیلانی، علمائے کرام جن میں شاہ احمد نورانی،امین احسن اصلاحی ،پیر کرم شاہ الازہری،احسان الہی ظہیر،مفتی سیاح الدین کاکا خیل،علامہ عنایت اللہ گجراتی،علامہ خادم حسین رضوی، علمی اور صحافتی شخصیات میں شورش کاشمیری، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر منیر الدین چغتائی،خورشید ندیم،فرخ سہیل گوئندی، ملاقاتوں کے احوال میں عوامی جمہوریہ چین کے صدر ہو جنتائو،صدر پاکستان جناب عارف علوی ،ڈاکٹر عبدالقدیر ،طاہرالقادری،معراج خالد ،ڈاکٹر امجد ثاقب،حافظ محمد سعیداور احباب و رفقاء میں جاوید ہاشمی ، حفیظ نیازی،حافظ سلمان بٹ،احمد بلال محبوب ، نصر اللہ شجیع نمایاں نام ہیں۔ کتاب میں جماعت اسلامی کے بانی امیر جناب سید ابوالاعلی مودودی کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’ مولانا محترم کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ جب وہ جوان تھے تو انہوں نے اپنے وقت کے بزرگ رہنمائوں کو متاثر کیا اور ان سے خراج عقیدت وصول کیا۔ یہ وہ دور تھا جب قوم کی رہنمائی کے لئے جلیل القدر شخصیات موجود تھیں اور آج کی طرح قحط الرجال نہ تھا۔۔ بزرگوں کے اتنے وسیع مجمع میں اکیس برس کا ایک نوجوان نمایاں ہو گیا کہ امت مسلمہ کو پیغام زندگی عطا کرنے والے علامہ اقبال کی نگاہ بھی یہیں آکر ٹھری۔ مولانا محمد علی جوہر نے بھی اس نوجوان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ۔ جمیعت علمائے ہند کے عالی مرتبت رہنمائوں نے بھی اس نوجوان کی فکر اور تحریروں پر یوں اعتماد کیا کہ اپنے نمائندہ پرچے کے لئے اسے مدیر مقرر کیا ۔علامہ اقبال کی دعا کے مطابق یہ جوان پیرو ںکا استاد بن گیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر معمر ابوالاعلٰی نے بزرگوں سے بڑھ کر نوجوانوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ ‘‘ اسی طرح کتاب میں شامل جماعت اسلامی کراچی کے ایک رہنما جو ایک مقامی اسکول میں استاد بھی تھے ان کی شہادت کے واقعہ کو ’’ نصراللہ شجیع بے خطر کود پڑا ۔۔۔‘‘ کے عنوان سے بڑی گہری محبت اور عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے کچھ مختلف اقتباسات سے فرید پراچہ کی ادبی حیثیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔وہ لکھتے ہیں ’’ جن لوگوں نے دریائے کنہار دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ نہایت تیز رفتار ،طوفانی لہروں اور بپھرتی ہوئی موجوں والا دریاہے اور جسے صرف دیکھنے سے ہی پتہ پانی ہو جاتا ہے۔شوریدہ سر طوفانی لہریں جب بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتی ہیں تو دل دہلادینے والی خوفناک آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اسی دریا کے کنارے 2 جون 2014کی چمکتی دوپہر کو ایک اور داستان لکھی گئی ۔ ایثار وقربانی کی داستان ،اپنے مقدس فرض سے محبت کی داستان اور انسان دوستی کی داستان۔ ‘‘ نصراللہ شجیع اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ پاکستان ٹور پر تھے اور مختلف مقامات کی سیر کرنے کے بعد بالاکوٹ پہنچ گئے۔ دریا کے کنارے بچے تصاویر بنوارہے تھے کہ ان میں سے ایک بچے کا پائوں پھسلا اور وہ دریا میں جا گرا۔ اس صورتحال کو فرید پراچہ نے جس دلگدازی سے پیش کیا ہے ان کے الفاظ میں ہی ملاحظہ کیجئے ۔ ’’ انہوں نے بچے کو بچانے کے لئے بے دھڑک دریا میں چھلانگ لگادی ۔ ہوائیں تھم گئیں ۔دیکھنے والوں کے سانس رک گئے لیکن طوفانی لہروں نے ایک باپ،ایک استادایک بڑے انسان کے جذبے کی قدر نہ کی۔ انہیںہاتھ پائوں مارنے اور بچے کو گرفت میں لانے کی بھی مہلت نہ دی ۔ شوریدہ سر لہریں انہیں نجانے کہاں لے گئیں۔ شاید فرشتوں نے اسے اپنے نورانی پروں میں چھپالیا۔‘‘ کتاب کا خیر مقدم کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق فرماتے ہیں کہ ’’ میرے رہنما میرے ہم نوا ‘‘ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی اپنے دوست احباب کے بارے میں خوبصورت تاثراتی مضامین ، ملاقاتوں اور تعلقات پر مبنی حکایات کا مجموعہ ہے جسے انہوںنے محبت سے ترتیب دیا ہے۔وہ تعلق بنانا اور نبھانا خوب جانتے ہیں جس کا اظہار ان کے مضامین سے ہوتا ہے۔تعلقات بنانا اور نبھانا ایک فن ہے جس میں انہوں نے کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ کتاب کے پیش لفظ میں حافظ محمد ادریس صاحب لکھتے ہیں : ’’ مصنف نے سو کے لگ بھگ شخصیات سے اپنی حسین یادوں کا مرقع اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ ہر شخصیت کا ایک دلچسپ اور منفردپہلو سامنے آجاتا ہے۔مولانا مودودی ، میاں طفیل محمد ، قاضی حسین احمد ، سید منور حسن، پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی شہیداور تمام اہم شخصیات سے مصنف کی ملاقاتیں اور یادداشتیں اس کتاب کی زینت ہیں۔ جماعت کے باہر کی شخصیات یہاں تک کہ بے نظیر صاحبہ، میاں نواز شریف ، منظور وٹو، نوابزادہ نصراللہ خان ،مولانا فضل الرحمن اور درجنوں دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ موصوف کے تعلقات اور یاد اللہ رہی ہے۔ یہ سب یادیں اس کتاب میں نگینوں کی طرح پرو دی گئی ہیں ‘‘ اور خود ڈاکٹر ٖفرید پراچہ اپنی کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں: ’’ نیز زندگی بھر جن دوست و احباب اور رفقائے کرام سے ملنے مل بیٹھنے، مشترکہ جدوجہدکرنے کے مواقع ملے۔ بلاشبہ انکی تعداد ہزاروں میں ہے۔ خواہش تو یہ ہے کہ سب پر کچھ نہ کچھ لکھا جائے تاہم پہلے مرحلہ میں اس کتاب میں ممکنہ حد تک اہم ترین قائدین اور زیادہ سے زیادہ دوست و احباب کا ذکر ہے۔تفصیلی نہیں اجمالی ، محض تعارفی، محض تاثراتی۔ کاش میں زیادہ تفصیلات لکھ سکتا۔‘‘ طالب علمی سے لے کر پارلیمانی سیاست تک ان کے تجربے اور شخصیاتی مطالعہ کی خوبیوں سے مزئین یہ کتاب پڑھنے والوں کے لئے دلچسپ ثابت ہوگی۔