قیدیوں سے بلا چھن جانے کے بعد اس بات میں تو اب کسی کو کوئی شبہ تھا بھی تو دور ہو جانا چاہئے کہ آٹھ فروری کا نتیجہ تو مرزا یار ہی کے حق میں آئے گا، جس کی محبوب سے ملاقات کے لئے ہر طرف گھپ اندھیرا کر کے گلیاں مکمل طور پر سونی کر دی گئی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ٹؤں ٹؤں کرنے والی فقیر کی کتی کو مارنے سے لے کر روشن دیوے والی کراڑ کی ہٹی کو جلانے تک کا سارا کام منتظمین وقوعہ نہ صرف اپنی نگرانی بلکہ براہ راست اپنے ہاتھوں سے سرانجام دے رہے ہیں تاکہ حجلہ عروسی تک پہنچنے میں مرزے یار کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاہم سنتے ہیں کہ محبوب سے ملاقات یقینی ہونے کے باوجود مرزے یار کو پریشانی سے نجات نہیں مل رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے طے شدہ شرائط کے مطابق اسے حجلہ عروسی میں محبوب پر مکمل تصرف نہیں دیا جائے گا۔ یہی وہ وجہ ہے جو پہلے بھی تین دفعہ منتظمینِ وقوعہ اور مرزے یار کے درمیان اختلافات کا سبب بنی تھی۔ مرزے یار جی کیوں بار بار منتظمین وقوعہ سے لڑ پڑتے ہیں، اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ باوجود اس کے کہ منکرین خدا کی طرح وہ اور ان کی جمہوریت کے شیدائی دانشور حواری ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ خود ہی اپنے تخلیق کار ہیں جبکہ حقیقتاً اول و آخر ان کی تخلیق منتظمین وقوعہ کی فنکارانہ صلاحیتوں کی مظہر ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ خوشی کے لمحات میں کسی صورت تخلیق کاروں کو شامل نہیں کرنا چاہتے جبکہ منتظمین وقوعہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ جو کچھ ہو گا ان کی مرضی کے مطابق ان کی نگرانی ہی میں ہو گا۔ کوئی بھی تخلیق کار ہو ہمیشہ چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق پر اس کے طے کردہ اصول و ضوابط کے مطابق تصرف کیا جائے جبکہ تخلیق جس کے قبضہ قدرت میں ہو وہ چاہتا ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق بلا شرکت غیرے تصرف میں لائے۔ ازل سے یہی جھگڑا چل رہا ہے۔ ارضِ پاک کی تاریخ بھی اسی حقیقت کی گواہ ہے۔ یحییٰ خاں کے دور میں 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں گو جنرل غلام عمر اور جنرل شیر علی خاں کی کوششیں مرضی کے نتائج نہ لا سکیں اور ذوالفقار علی بھٹو لیاقت علی خاں کے بعد ارض پاک کی تاریخ کے سب سے بااختیار وزیراعظم بن کر ابھرے لیکن پھر اس کی سزا بھی ان کو بھگتنی پڑی۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے محمد خاں جونیجو نام کی پتلی برآمد ہوئی لیکن مصنوعی ذہانت کے مستقبل کے باغی روبوٹوں کی طرح جونیجو صاحب تخلیق کاروں کے اشاروں پر رقص کرتے کرتے کہیں کہیں اپنی مرضی کا ٹھمکا لگانے لگ پڑے حالانکہ ان کے تمام اختیارات تفویض کردہ تھے کیونکہ ان کی پشت پر ان کی اپنی کوئی پارلیمانی طاقت نہیں تھی بلکہ انہیں غیر جماعتی اسمبلی سے یار لوگوں کی مہربانی سے قائد حزبِ اقتدار کے طور پر چنا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو پہلی قائد تھیں جو اپنی پشت پر اس وقت کی سب سے مقبول سیاسی جماعت، 1988ء کی اسمبلی کا سب سے بڑا پارلیمانی گروپ اور گیارہ سالہ جدوجہد رکھنے کے باوجود یار لوگوں سے ایسا سمجھوتہ کر کے کرسیئِ اقتدار پر براجمان ہوئیں جس کے نتیجے میں انہوں نے خارجہ اور خزانہ سمیت کئی وزارتیں یار لوگوں کے تصرف میں دے دیں۔ اس راقم کی نظر میں یہی لمحہ ارض وطن کی سیاست میں جمہوری نظام کے اعصاب کے ٹوٹنے کے عمل کی ابتدا کا لمحہ تھا۔ اس میں یار لوگوں کے سب سے بڑے آلہ کار کوئی اور نہیں بلکہ آج کچھ نام نہاد مثالیت پسندوں کے بھگوان اور بزم خیال کے مرزا یار جناب میاں نواز شریف تھے۔ پھر یہ ہوا کہ نواز شریف ہوں یا بے نظیر ہر کوئی اس سمجھوتہ جمہوریت پر فریفتہ ہوتا گیا اور جنرل ضیاالحق کے اس قول کو سچ ثابت کرنے پر جت گیا کہ ’’جس کو بھی ٹکڑا ڈالوں گا دم ہلاتا آئے گا‘‘۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا انتخابات محض ایک وقوعہ بن کر رہ گئے جس کے ذریعے کسی کو بنا سجا کر کرسی اقتدار تک پہنچانے کی رسومات ادا کی جاتی ہیں جبکہ اختیارات کا منبع منتخب ایوان نہیں بلکہ منتظمین وقوعہ کا اشارہ ابرو ہوتا ہے۔ گزشتہ 35 سال میں وزرائے اعظم اور یار لوگوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کا نقد نتیجہ یہ ہے کہ سیاستدان مکمل طور پر چاروں شانے چت ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف یار لوگ ایسے ماہر منتظمین وقوعہ کے طور پر ابھرے ہیں جن کا پوری دنیا میں شائد کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اپنا کام سر انجام دینے میں سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹیوں اور ایران کی مذہبی اشرافیہ نے بھی ہمیشہ کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اپنے ہاں تو انتخابی مشق سے مرضی کے نتائج حاصل کرنا محض ایک نوٹیفکیشن کی مار رہ گیا ہے جس کا بھرپور عملی مظاہرہ ہم 2013 میں دیکھ بھی چکے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی نو آبادیاتی استعمار کی روایات کے امین ہیں۔بلکہ ہم نے تو اب ان روایات کو ترقی دے کر وہاں تک پہنچا دیا ہے کہ اگر کبھی برطانیہ ہمیں موقع دے تو وقوعہ کے انتظام میں ہماری مہارت کو دیکھ کر اس کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا کہ اس کے شاگرد اس کام میں کس درجہ مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ بجائے ایک دفعہ پھر اختیارات کی کشکمش میں پڑھنے کے سب فریق ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کر کے کوئی ایسا طریق کار وضع کر لیں جس کے ذریعے ارض پاک کو مسائل کی دلدل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔