پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں برے دن تو اپنی جگہ مگر اچھے دنوں میں بھی کبھی عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا ۔ کہنے کو تو یہ ایک زرعی ملک ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے یہاں غذائی قحط بھی پڑا ہوا ہے تبھی گندم کے نرخ ہمسایہ ممالک سے دوگنے ہو چکے ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اس نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔حالانکہ اس سے پہلے بھی مہنگائی ہوتی رہی ہے مگر اس بار کی مہنگائی ایسی ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے والے مجسمہ تصویر بنے ہوئے ہیں ،عام آدمی فاقہ کشی پر مجبور ہوگیا ہے، جبکہ جھونپڑیوں میں رہنے والے بھی فٹ پاتھ پر آگئے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں یہ لوئر مڈل کلاس وہی ہے جسے کبھی مڈل کلاس کہا جاتا تھا انہیں ’’لوئر‘‘ اس لئے کہنا پڑا کہ آج کی مڈل کلاس تو کروڑوں میں کھیلتی ہے۔بہرحال آپ کہیں بھی چلے جائیں عوام آپ کو سخت پریشان نظر آئیں گے۔ خیر مسئلہ یہ ہے کہ حالات کی بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔ عالمی معاشی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 43فیصد مہنگائی ہے جبکہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ مزید بڑھے گی جبکہ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں بھی کنٹرول سے باہر ہو جائیں گی۔ اب اگر گندم مہنگی ہے تو غریب آدمی کیا کرے گا!چلیں چینی مہنگی ہے تو وہ گزارا کر لے گا ، مگر گندم اور روزانہ کی اشیاء کا کیا کرے گا؟ بجلی، پٹرول کا کیا کرے گا؟ وہ ڈکیتی نہ کرے، راہ زنی نہ کرے یا ہیرا پھیریاں نہ کرے تو اور کیا کرے؟ اور پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ میرے گھر میں فاقے ہوں اور میں خاموشی سے گھر بیٹھ جائوں اور موت کا انتظار کروں… چلیں یہ بھی مان لیا کہ میں موت کا انتظار کر سکتا ہوں… لیکن آپ اپنے بچوں کا کیا کریں گے؟ یعنی میرا بچہ اگر سکول نہیں جا رہا تو چلیں میں گزارا کر لوں گا، اگر وہ اچھے کپڑے نہیں پہن رہا تو میں گزارا کر لوں گا، لیکن اگر روٹی نہیں کھائے گا ، یا وہ بیمار ہے تو اُسے دوا نہیں ملے گی اور وہ مر رہا ہوگا تو پھر میں یقینا بڑا قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ اس حوالے سے کیا آپ کو علم نہیں کہ جنگل کا قانون کیا کہتا ہے؟ جنگل میں جب کسی جانور کا بچہ بھوکا ہوتا ہے تو وہ اُس کی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے کیا کسی کو چیرنے پھاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں؟ نہیں ناں! یہی حال پاکستانیوں کا ہو چکا ہے۔ لہٰذاآج حکمران پاکستان کو اُس سسٹم پر لے آئے ہیں کہ جہاں محض ایک چنگاری چاہیے ہوتی ہے پورے سسٹم کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ۔ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ سول نافرمانی کریں۔ اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال بھی کر رہے ہیں اور چیک بھی کر رہے ہیں کہ عوام کی برداشت کا پیمانہ کیا ہے! یقین مانیں اس وقت ہم پہلے ہی دنیا بھر میں بدنام ترین قوم بن چکے ہیں، نہ ہم تعلیم میں آگے جا رہے ہیں، نہ ہم ریسرچ میں آگے ہیں اور نہ ہی ہم دنیا کے کسی کام آرہے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس وقت دنیا بھر کی جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ زیادہ تر انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ میں پکڑے جاتے ہیں۔ بزنس میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ جبکہ ہم پاکستانیوں کا اس میں حصہ 69فیصد سے بھی زیادہ کا ہو چکا ہے۔ اور تو اور ایک اسٹڈی کی گئی ہے کہ لوگ کس قدر پڑھتے ہیں ان کے مطابق پاکستانی سال میں صرف6 منٹ پڑھتے ہیں جبکہ یہودی سال میں اوسطاً 72کتابیں پڑھتے ہیں۔ کیا کریں! کوئی ہم سے پوچھتا ہے کہ پاکستان میں آخر چل کیا رہا ہے! تو ہم اُسے یہی کہتے ہیں کہ بھیا! یہاں تو عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، وہ زیور گروی رکھ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں، وہ 3کے بجائے ایک وقت کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جبکہ حکمران ہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک پراجیکٹ کا افتتاح کر رہے ہیں، وہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں سیاسی شعبدہ بازیاں کر رہے ہیں، پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں نہیں، ڈیڑھ ماہ میں جتنے افتتاح ہوئے ہیں، وہ گنیز بک میں لکھے جانے چاہئیں۔ہر ایم این اے ایم پی اے کو اربوں روپے کے فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں ، تاکہ وہ اپنے حلقہ میں ترقیاتی کام کروائے اور الیکشن کو کیش کروائے۔ حالانکہ انہیں معلوم بھی ہے کہ نتائج کہاں سے آتے اور کہاں سیٹ کیے جاتے ہیں۔ خیر! بجلی کی قیمتوں اور اب پٹرول کی قیمتوں میں کمر توڑ اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، اوپر سے وہ تمام اشیائے خوردنی جو روز مرہ استعمال کے لئے ہیں وہ بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔کم آمدنی کے حامل لوگوں کے لئے زندگی دشوار ہو گئی ہے۔ قوتِ خرید ہو یا قوتِ برداشت‘ دونوں ہی حکمرانوں کے ہاتھوں میں دَم دے چکے ہیں۔ حکمران اتحاد کی کارکردگی ڈھونڈنے نکلیں تو ملک کے طول و عرض میں ڈھونڈے سے بھی کچھ نہیں ملتا البتہ ادارہ احتساب کا دھڑن تختہ کرنے سے لے کر قانون اور ضابطوں کو شرمسار و سرنگوں کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ سے عین موافق اور من پسند قانون سازی کے ریکارڈز بھی توڑے جا چکے ہیں۔جبکہ دوسری طرف مملکتِ خداداد میں 75برسوں سے لگے تماشے کا جائزہ لیں تو کھیتی صرف عوام نے ہی کاٹی ہے۔ حکمرانوں کی لگائی ہوئی کھیتیاں کاٹتے کاٹتے اب تو ہاتھ بھی لہو لہان ہو چکے ہیں بالخصوص دو خاندان ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ حکمرانی کے ادوار میں وطنِ عزیز کی عمرِ عزیز کا نصف سے زائد عرصہ کوڑھ کاشت کرتے رہے ہیں‘ وہ کوڑھ اب جابجا ہر سْو دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر طرزِ حکمرانی کی سبھی کھیتیاں عوام ہی کاٹتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے اعمال کی ایک کھیتی بھی نہیں کاٹی‘ کھیتی کاٹنے کے بجائے یہ نئی فصل ہی لگاتے چلے گئے ہیں اور ان سبھی فصلوں کو کاٹتے کاٹتے عوام کی کتنی ہی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں۔ بہرکیف ملک میں گزشتہ ایک برس سے جاری مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ،اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں کیا جا رہاہے،جہاں افراطِ زر کی شرح ریکارڈ سطح پر ہے ،خود حکومتی اعداد شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 42فیصد سے بھی زائد ہے ،ایسے میں حکومت کو عوام کو ریلیف دینے کیلئے راستے تلاش کرنے چاہئیں تھے مگر ایسا نہیں کیا گیابلکہ اس مرتبہ بھی بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 7روپے اور پٹرول کی قیمتوں میں 20روپے تک اضافہ کر دیا گیا ہے، لہٰذا اگر حکمران اور فیصلہ کرنے والے ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں تو اُن کی خواہش اگر حالات ٹھیک نہ ہوئے تو جلد ہی پوری ہو جائے گی اور پھر کچھ بھی قابو میں نہیں رہے گا!