اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی ڈویژن بنچ نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو توشہ خانہ کیس میں ملنے والی سزا معطلی کے ساتھ ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی ایک خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان کو بدستور اٹک جیل میں قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں بدھ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادی النظر میں جس طرح چیئرمین تحریک انصاف پر مقدمات کی لائن لگی ہوئی ہے، اس حساب سے تو وہ اگلے تین سالوں میں بھی جیل سے باہر نہیں آسکیں گے، لیکن مذکورہ جماعت کی قیادت کو بلند حوصلہ کی داد دینے پڑے گی کہ ایک طرف وہ ’’اداروں‘‘ کا مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ نگران حکومت کے زیراعتاب آئے ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سابقہ حکومت خاص طور پر ن لیگ نے تحریک انصاف کو نشانہ بنا رکھا تھا، اور اپنے آخری دنوں میں تو انہوں نے مخالف سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی انتہا کر دی تھی۔اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نگران حکومت اور پی ڈی ایم حکومت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہاحالانکہ ’’نگرانوں‘‘ کو ہرگز ’’سیاسی‘‘ نہیں ہونا چاہیے، اسے کسی خاص جماعت کے لیے بغض نہیں رکھنا چاہیے، اسے صرف فری اینڈ فیئر الیکشن کی طرف توجہ دینی چاہیے، کیئرٹیکرز کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں ، رہنمائوں اور قیادت پر کس طرح ظلم ڈھانے ہیں۔ اور نہ ہی اس چیز میں دلچسپی ہونی چاہیے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو کس کس مقدمے میں ابھی حراست میں رکھنا ہے۔ بلکہ اس چیز میں بھی دلچسپی نہیں دکھانی چاہیے کہ عدالتیں کیا فیصلہ دیں گی اور آنے والے وقت میں کس پارٹی کو اوپر آنا چاہیے۔ لیکن یہ ساری بحث ایک طرف مگر یقین جانئے اس وقت پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کے ساتھ جو حال کیا جا رہا ہے وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ چیئرمین تحریک انصاف جس دوران توشہ خانہ کیس میں سزا کی وجہ سے اٹک جیل میں اسیر تھے، اسی دوران میں متعدد مقدمات میں عدالتوں نے ’عدم حاضری‘ کی بنا پر ان کی ضمانتیں منسوخ کر دیں۔ یعنی تھیوری کی حد تک عمران خان کو ایسے تمام مقدمات میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ نظام انصاف کا یہ پہلو بھی افسوسناک ہے کہ ضمانتیں منسوخ کرنے والے جج یہ جانتے ہوئے بھی ’عدم حاضری‘ کو عذر بنا رہے تھے کہ متعلقہ شخص مقید ہے اور خواہش کے باوجود اس وقت تک کسی عدالت میں پیش ہونے کے قابل نہیں ہے، جب تک کوئی عدالت جیل حکام اور پولیس کو اسے پیش کرنے کا حکم جاری نہ کرے۔ ایسے فیصلے اور احکامات نظام انصاف کی کمزوریوں کو ہی واضح نہیں کرتے بلکہ اس طرح کے طریقوں سے شہریوں کو آئین میں فراہم کیے گئے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ لیکن کیا کریں یہ پاکستان ہے! یہاں نظام کی دھجیاں ایسے اُڑائی جا تی ہیں جیسے ان کے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا۔ یہاں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بے چینی، نفرت اور غصے کا لاوہ تیزی سے پک رہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ایک طرف مہنگائی، سیاسی بے یقینی،اور معاشی ابتری نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات میں اضافے نے قوم کے غصے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ بازاروں میں ساہو کاروں نے اشیاء کی من مرضی کی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں۔عام آدمی خود کشی کر رہا ہے یا جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔سابق حکمران طبقے نے اپنے جرائم معاف کرانے کے لیے پورا ملک دائو پر لگا دیا۔گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد تا حال زرعی زمینیں تباہ حالی سے دوچار ہیں جس سے غذائی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ملک کے طول و عرض میں رابطہ سڑکیں سفر کے قابل نہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ پچھلے دنوں جنوبی افریقہ میں برکس (BRICS) کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ برازیل، روس، انڈیا، چین اور سائوتھ افریقہ اس تنظیم کے ممبر ممالک ہیں۔ یہ سب دنیا کے نمایاں ممالک اور ابھرتی ہوئی طاقتیں ہیں جو مغرب کی چودھراہٹ کے مقابلے میں متوازی گروپ بنا رہی ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگلے سال کے آغاز میں ایران،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، مصر اور ارجنٹائن اور ایتھوپیا کو بھی اس تنظیم کا ممبر بنایا جائے گا۔ عالمِ اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت یعنی وطن عزیز یعنی پاکستان کو دعوتِ شرکت کیوں نہ دی گئی، اس کی وجہ ہمارا سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی حالت ہے۔کیا فیصلہ کرنے والوں کو یہ چیزیں نظر نہیں آرہیں؟ کیا اُن کے نزدیک ملک کا استحکام صرف اور صرف اس بابت ہوگا کہ تحریک انصاف کا قلع قمع کیا جائے۔ اور چیئرمین تحریک انصاف کو زیادہ سے زیادہ دیر جیل میں رکھا جائے تاکہ اُس کی شہرت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ لہٰذافیصلہ کرنے والی قوتیں اب ماراماری کی سیاست چھوڑیں، ریاست ایک ماں ہوتی ہے، اور ماں کا گوشہ ہمیشہ نرم رہتا ہے، خواہ اولاد کتنے ہی مسائل کیوں نہ پیدا کردے ۔ اگر تحریک انصاف سے غلطیاں ہوئی ہیں، یا دیگر جماعتوں نے مذکورہ جماعت سے محض بدلا لینے کے لیے ان پر جھوٹے مقدمات کیے ہیں تو اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلکہ اس معاملے میں صرف یہ دیکھ لیں کہ گزشتہ حکومت کی 90فیصد قیادت اس وقت لندن میں موجود ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر تمام مقدمات بھی ختم کروا لیے ہیں اور دودھ کی دھلی بن کر عوام میں دوبارہ آنے کے لیے تیار ہے۔ صحت مند اور خوشحال عوام ہی توانا اور مضبوط پاکستان کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ بڑے زمینداروں پر انکم ٹیکس اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب دکانداروں‘ وکیلوں‘ ڈاکٹروں اور بلڈرز‘ سب کو ایمانداری سے ٹیکس دنیا ہوگا۔ آج کنسلٹنٹ لیول ڈاکٹر کی فیس پانچ ہزار ہے اور ایک اچھا ڈاکٹر درجنوں مریض روزانہ دیکھتا ہے اور وہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ فیس لینا پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح اس کی اصل انکم عیاں ہو جاتی ہے۔کیا ایف بی آر کے لیے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کون لوگ اپنی تعطیلات بیرونِ ملک گزارتے ہیں۔ کس کس کے پاس لینڈ کروزر جیسی دیو ہیکل گاڑیاں ہیں۔ کون سے لوگ فارم ہائوسز میں رہ رہے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بڑے کلب کی ابتدائی ممبر شپ فیس 35 لاکھ ہے اور امیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ان میں سے کون کتنا ٹیکس دیتا ہے‘ کیا ایف بی آر کو معلوم نہیں۔ اقتصادی انصاف‘ سماجی انصاف کی بنیاد ہے۔اگر یہ سب کچھ ایف بی آر کو معلوم نہیں تو یقینا ہمارے سیکورٹی اداروں کو ضرور علم ہوگا۔ اس حوالے سے وہ پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں! اور رہی بات نگران حکومت کی تو خدارا !آپ اپنے کام سے کام رکھیں، الیکشن کمیشن کے معاملات ہوں یا عدالتوں کے۔ سب اپنا اپنا کام کریں تاکہ ملک عدم استحکام کا شکار نہ ہو!