ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جب ہم کسی دور سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ ہم پر قیامت ڈھاتے ہوئے گزرتا ہے، لیکن جب اگلا دور اُس سے بھی برا آتا ہے تو ہم پچھلے دور کو رحمت اور اگلے دور کو زحمت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے مشرف حکومت کا دور ہمیں برا لگتا تھا لیکن اُس کے بعد پیپلزپارٹی کا دور آیا تو ہمیں مشرف دور Blessingلگنے لگا۔ لیکن پھر اُس کے بعد ن لیگ کی حکومت آئی اور نت نئے ٹیکسز لگے تو ہمیں زرداری صاحب اچھے لگنے لگے۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور مہنگائی 15فیصد کراس ہونے لگی تو ہمیں نواز دور اچھا لگنے لگا۔ لیکن پھر انصافی دور کا جیسے ہی خاتمہ کیا گیا اور شہباز حکومت آئی تو تحریک انصاف کی حکومت ہمیں فرشتہ صفت لگنے لگی۔ یہی حال ہمارے ہاں فوجی حکومتوں کا رہا کہ آپ فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کی مثال لے لیں۔ان کے دور میںملک دولخت ہوگیا۔سب نے برا بھلا کہا ، مگر جب جنرل ضیاالحق تشریف لائے تو اس رائے پر نظر ثانی کرنا پڑی اور مورخ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ جنرل یحییٰ خان جو بھی تھا ،کم ازکم منافق نہیں تھا۔ پھر ہمارے ’’لخت جگر‘‘ کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہمیں سابقہ جرنیل بھولنے لگے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 6سالہ دور میں جوکچھ ہوا ،اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔آپ عدلیہ ہی کی مثال لے لیں، عدلیہ میں بھی کم وبیش اسی طرح کی صورتحال کا سامنا رہا۔مولوی تمیز الدین کے مقدمہ میں جسٹس منیر نے وہ بدنامی سمیٹی کہ نظریہ ضرورت پہلی بار منظر عام پر آیا۔ لیکن جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس افتخار چوہدری نے یہ مغالطہ دور کردیا۔لہٰذاہمیں ہر دور ہی نامناسب ملا اور اسی وجہ سے ملک پیچھے کی جانب چلا گیا۔ اب اگر آپ آج رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی بات کریں تو وہ سپریم کورٹ کے 28ویں چیف جسٹس تھے، انہوں نے گزشتہ حکومت کے بے شمار غلط فیصلوں کے آگے بند باندھے رکھے۔ یہ وہی بند تھے جن کا ذکر انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنی پہلی تقریر میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’میاں صاحب (جسٹس ثاقب نثار) نے ایک موقع پر علی الاعلان کہا تھا کہ ان کی زندگی کے دو ہی مقصد ہیں، ڈیم بنانا اور ملکی قرضے اتارنا۔ میں بھی چند ڈیم بنانا چاہوں گا۔ مقدمات کے غیر ضروری التوا کو روکنے کیلئے ڈیم، غیر سنجیدہ مقدمات دائر کرنے کیخلاف ڈیم، جعلی گواہوں اور غلط شہادتوں کیخلاف ڈیم۔ اور میں بھی قرض اتارنے کی کوشش کرونگا، زیر التوا مقدمات کا قرض جنہیں پہلی فرصت میں نمٹایا جانا چاہئے‘‘۔انہوں نے آڈیو لیکس جیسے مقدمات میںدبائو کا سامنا کیا، انہوں نے 9مئی جیسے واقعات پر عدالتی دبائو کا سامنا کیا، انہوں نے نیب ترامیم کے خلاف کھل کر فیصلے دیے۔ تادم تحریر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دیں۔انہوں نے نیب کی تمام ختم کی گئی انکوائریز اور کیسز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے سارے مقدمات بحال کر دیے۔انہوںنے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 شقیں اڑا دیں، 1 برقرار رکھی ہے اور تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قراردے دیے ہیں۔اس فیصلے کے بعد یقینا نوازشریف، شہباز شریف ، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شوکت عزیز سمیت سابق ایک صدر اور 6وزرائے اعظم کے مقدمات کھلیں گے۔ یہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے، جرأت مندانہ ہے اور بے باک ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس ’’محفوظ فیصلے‘‘ کو چیف جسٹس اگر کچھ دن پہلے سنا دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن دیر آئد درست آئد کے مصداق اب اس فیصلے کے بعد سیاست کا رُخ تبدیل ہو جائے گا۔ ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگا۔ الیکشن الیکشن کرنے والی پارٹیاں الیکشن سے دور بھاگیں گی۔ جبکہ مقتدرہ کو بھی نئے سرے سے تمام حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ رہی بات نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تو وہ یقینا بے حد مشکلات کے بعد چیف جسٹس بنے ہیں، اُن کی چیف جسٹس بننے کے راہ میں رکاوٹوں کا اگر ذکر کروں تو قاضی صاحب 2014ء میں سپریم کورٹ کے جج بنے ۔ نومبر2017کے فیض آباد دھرنا کیس میں دیئے گئے فیصلے پر پنجاب بار کونسل (پی بی بی سی) نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف مظاہرے شروع کردیے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ عدالتی فیصلے میں مسلح افواج اور ملک کی سب سے بڑی سیکیورٹی ایجنسی کے خلاف تنقید پر انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔پھر اسی اثناء میں اُن کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا گیا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی سے رابطہ کر کے شکوہ کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔جوڈیشل کونسل ملک کا واحد اعلیٰ آئینی فورم ہے جہاں ججز کے خلاف دائر ریفرنسز کی سنوائی ہوتی ہے جبکہ یہی ادارہ ان جج کو ہٹانے کی تجویز پیش کرنے کا مجاز بھی ہے، لیکن یہاں اُن کے خلاف ریفرنس ضائع ہوگیا اور مخالفین کو منہ کی کھانا پڑی لہٰذااگر آپ کی نیت ٹھیک ہے اور آپ ٹھیک چل رہے ہیں تو پھر قسمت بھی آپ کے ساتھ ہوتی ہے اور غیبی مدد بھی آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ اب چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ بے شک وہ (اللہ) جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ بہرکیف میں اکثر اُن کے بار ے میں کہتا ہوں کہ ن لیگ یہ مت سوچے کہ وہ نواز شریف کی واپسی کے لیے کوئی راہ ہموار کریں گے یا اُنہیں کسی قسم کی معاونت فراہم کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہر دور میں ہر سیاسی جماعت کو ناراض کر چکے ہیں۔ وہ ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف حتیٰ کے مشرف تک کو ناراض کر چکے ہیں، لہٰذاقاضی صاحب کی بہت اچھی شہرت ہے کہ وہ بولڈ ہیں، اصول پسند ہیں، ڈھکی چھپی بات نہیں کرتے، ضرورت پڑے تو اداروں کو بھی احکامات جاری کرنے سے گریز نہیں کرتے، لیکن اس وقت اُن کے اوپر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں، وہ یقینا آئین کی پاسداری میں سب سے آگے ہوں گے، وہ یقینا 9مئی کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کریں گے ۔ سب سے اہم عدلیہ کے لیے ایسا سسٹم مرتب کریں گے کہ زیر التواء کیسز میں کمی آسکے۔ بادی النظر میں اگر اُن کے ہوتے ہوئے عدلیہ کے زیر التوا کیسز کی تعداد نسبتاََ کم ہوئی تو یہ اُن کی بڑی کامیابی ہوگی ورنہ ایک سال ڈیڑھ ماہ بعد ہم دوبارہ اُنہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوں گے اور ملک مزید پیچھے جا چکا ہوگا!