اس وقت 95فیصد امکان ہے کہ 8فروری کو الیکشن ہو جائیں گے، کیوں کہ آہستہ آہستہ الیکشن میں کھڑی تمام رکاوٹیں ختم ہو رہی ہیں۔ جیسے حلقہ بندیوں پر اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا ہے، پھر لاہور ہائیکورٹ کے بیوروکریسی سے الیکشن کروانے کے حوالے سے فیصلے کو سپریم کورٹ نے رد کر دیا ہے، اور پھر الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے کہنے پر الیکشن شیڈول جاری کر دیا ہے۔ جبکہ اگر کہیں مسئلہ ہے تو یہ ہے کہ تمام جماعتوں کو الیکشن مہم کے لیے یکساں مواقع فراہم نہ کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے اگر الیکشن ہو بھی گئے تو دھاندلی کی ایسی تحریکیں جنم لیں گی کہ جس سے اگلے پانچ سال منتخب حکومت کو چلنا مشکل ہو جائے گا۔ یعنی اس وقت انتخابات پر 59ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود بھی اگر کسی پارٹی نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے تو نہ صرف ملک سنگین بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جائے گا بلکہ دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی مزید بڑھ جائے گا۔ اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی جماعت جس نے بیوروکریسی سے انتخابی عملہ لینے کے خلاف درخواست دائر کروائی تھی وہ ان سرکاری بابوؤں کے کروائے ہوئے انتخابات کے نتائج کیسے من و عن تسلیم کرے گی؟ اگر انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے کوئی بھی ابہام موجود رہا تو انتخابی عمل اور نتائج دونوں ہی متنازع اور سنگین صورتحال کا باعث بن سکتے ہیں۔ گوکہ سپریم کورٹ کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کا بیوروکریسی سے انتخابی عملے کی تعیناتی منسوخ کرنے کا فیصلہ معطل کیا جا چکا ہے‘ تاہم یہ یقین دہانی بھی ضرور کر لینی چاہیے کہ کہیں انتخابات کے بعد حالات وہ رُخ اختیار نہ کر لیں کہ انتقالِ اقتدار ہی کھٹائی میں پڑ جائے۔ 59ارب روپے کی خطیر لاگت کے بعد بھی اگر انتخابی عمل سبوتاژ ہونے کا خدشہ موجود ہو تو اس خدشے کے تدارک کے لیے ان تحفظات اور اعتراضات کو ضرور دور کر لیں جو بڑے سنگین بحران کا سنگِ میل بن سکتے ہیں۔ اگر ان خدشات کے سائے میں انتخابات کروائے گئے تو بڑے مالی خسارے کے ساتھ ساتھ اس قومی نقصان کا خطرہ بھی برابر موجود رہے گا جو ریاست کے لیے ناقابلِ تلافی صدمے کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔ اور ویسے بھی مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ یہ لوگ جیسی بھی دھاندلی کریں گے، انہوں نے آخر کار اپنے ہی جال میں پھنس جانا ہے ، اورن لیگ کا 2تہائی اکثریت کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو یہ سیٹ اپ کبھی چل نہیں سکے گا۔ کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو کو بھی 1977کے انتخابات میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی، لیکن سب کو علم ہے کہ کیا ہوا؟ یہ انتخاب پاکستان کا دوسرا انتخابی عمل تھا7 مارچ 1977 کے دن کو انتخابات ہوئے، انتخابات کے بعد 9پارٹیوں نے بھٹو کے خلاف اتحاد ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کا اعلان کیا جن میں نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت علمائے پاکستان ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، قیوم مسلم لیگ ، پاکستان مسلم لیگ (ف)، تحریک استقلال، پاکستان جمہوریتی پارٹی شامل تھی۔ پی این اے کے 9 جماعتی اتحاد میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف اور متفرق خیالات کی حامل ہونے کے باوجود، پی این اے کو بڑی مُتحرک اور اس کی دائیں بازو کے رجحان کے لیے جانا جاتا تھا۔ جس کا اصل مقصد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت کرنا تھا، جس میں خاصی حد تک وہ کامیاب بھی رہے۔ اپنے دائیں بازو کے مقبول ایجنڈے کے باوجود، اتحاد نے 1977 کے عام انتخابات میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے۔ مہینوں کی پرتشدد سیاسی سرگرمی کے بعد، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا ۔ اور حالات پھر کسی کے کنٹرول میں بھی نہ رہے۔ لہٰذابادی النظر میں اُس وقت بھی بھٹو کو اُن کا تکبر لے بیٹھا تھا، اور اب بھی خدانخواستہ ایسا ہو سکتا ہے۔آپ خود دیکھ لیں اس وقت لیول پلیئنگ فیلڈ کیا ہے؟ اور اب جب پورے ملک کی وکلاء بارز نے الیکشن کے لیے تمام جماعتوں کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے تو مجھے علم ہے کہ یہ تحاریک بھی کامیاب نہیں ہونے دی جا ئے گی۔ کیوں کہ انہی کے اندر سے ہی دھڑے بنا دیے جائیں گے۔ لہٰذاالیکشن کے بعد دھاندلی کی تحریک ایسے انداز میں شروع ہوں گی، کہ جنہیں روکنا مشکل ہوجائے گا۔کیوں کہ ابھی تک کے جو حالات اور سروے ہیں ، وہ یہی بتا رہے ہیں کہ اس وقت نواز شریف کی اپنی سیٹ پر الیکشن لڑنا مشکل ہو چکا ہے۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات اُس نہج تک نہ لے جائیں جہاں سے واپسی مشکل ہو جائے۔ میں پھر تاریخ کا حوالہ دوں گا کہ جب ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ اُلٹ تو گیا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر انتخابات کا اعلان بھی ہو گیا تھا کہ نوے دن میں ضرور ہوں گے لیکن جو تختہ اُلٹا تھا اُسی کا ڈر تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں پھر سے قائم نہ ہو جائے۔سکرپٹ تو یہ تھا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعدبھٹو کی مقبولیت پہلے کی طرح نہ رہے گی‘ لیکن جلد ہی واضح ہو گیا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعدمقبولیت کا گراف اوپر جاچکا ہے۔بھٹو مخالف پارٹیاں ڈر گئیں اورجن کے ہاتھوں میں اقتدار تھا اُن کے دل بھی لرزنے لگے کہ عوام کے ہاتھوں ووٹ ڈالنے کا موقع آیا توپتا نہیں کون سا طوفان برپا ہو جائے گا۔ اسی لئے عذر پیش کئے جانے لگے، پہلے آوازیں اُٹھیں کہ احتساب ہونا چاہئے اور پھر کہا گیا کہ نفاذِ اسلام بھی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں کون کون سے مذاق نہیں ہوئے، یہ بھی ایک ایسا ہی مذاق تھا۔ ضیاالحق کے نوے دن طول پکڑتے گئے اورپھر اعلان ہوا کہ انتخابات اکتوبر 1979ء میں ہوں گے۔بھٹو صاحب کا معاملہ نمٹادیا گیا تھا اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ سیاسی پارٹیوں میں یہ امید بندھی کہ کیونکہ بڑا مسئلہ راستے سے ہٹ چکا ہے اس لئے اب انتخابات ہو جائیں گے۔لیکن ایسا نہ ہوسکا اور الیکشن التوا کا شکار ہوتے چلے گئے، اور پھر تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ ملک میں ضیاء دور کی وجہ سے کلاشنکوف کلچر عام ہوا، سیاسی لوگوں کی چھٹی اور کاروباری لوگوں کی سیاست میں انٹری ہوئی، پھر فرد واحد کے فیصلوں نے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دیا، مذہبی شدت پسندی عام ہوئی۔ اور نہ جانے کیا کیا ہوا۔ اس لیے میرے خیال میں حکمران اور فیصلہساز قوتیں ہوش کے ناخن لیں ور ملک اُنہی کے حوالے سے کردیں جنہیں عوام اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ ورنہ ملک مزید پیچھے چلا جائے گا۔